ہر ماں کے دل میں ایک منفرد طاقت ہوتی ہے، جو اس وقت اور بھی گہری ہو جاتی ہے جب اس کا بچہ معمول سے مختلف ہوتا ہے۔ ایک خاص بچے کی پرورش کرتے وقت ماں کی بے پناہ محبت کا روزانہ امتحان لیا جاتا ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے معاشرے میں، جہاں اس محبت کو روزانہ ایسیچیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنہیں سمجھنا دوسروں کے لیے شائد مشکل ہو۔ یہ مائیں اکثر غیر ہمدرد دنیا کی سختی کو برداشت کرتی ہیں اور ان لوگوں کی طرف سے کم سے کم حمایت حاصل کرتی ہیں جو ان کے سب سے مضبوط اتحادی ہونے چاہئیں۔
پاکستان کا سماجی ڈھانچہ خاندانی اقدار میں گہرا جڑا ہوا ہے، جس میں مشترکہ خاندانی نظام عام ہے اور رشتہ دار عموماً ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ پھر بھی، ایک خصوصی بچے کی ماں کے لیے،یہ سپورٹ نیٹ ورک اکثر اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب اسے ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس کٹھن سفر کا آغاز ابتدائی تشخیص کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے، ایک ایسا لمحہ جو والدین کے اپنے بچے کے لیے خوابوں اور توقعات کو چکنا چور کر دیتا ہے۔ اس اطلاع کے ساتھ ہی حیرت انگیز تبصرے منظر عام پر آنے لگتے ہیں۔ خاندان کے بعض افراد اسے کسی غلطی یا گناہ کا سبب قرار دیتے ہیں اور بعض اسے شرمندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ماں کی حمایت کے لیے اس کے پشتی بان بننے ، جذباتی اور عملی مدد کی پیشکش کرنے کے بجائے، رشتہ دار اکثر خوف، لاعلمی،یا معذوری کے گرد بدنما داغ کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
خصوصی بچے ایک خالص اور بے لوث محبت کا مظہرہوتے ہیں۔ یہ دھوکہ دہی، لالچ، یا وراثت کے بارے میں خدشات سے پاک ہوتے ہیں۔ وہ دیکھ بھال اور پیار کے لیے اپنے والدین پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔ تاہم، کچھ والدین خوف اور سماجی دباؤ کی وجہ سے اپنے خصوصی بچوں کو دوسروں سے متعارف کرانے میں ہچکچایٹ محسوس کرتے ہوئیانہیں خصوصی مراکز میں داخل کروا دیتے ہیں۔ ایک معروف نیورو سرجن، خصوصی بچوں کے والدین سے مل کر متاثر ہوئے بغیر نہ سکے اور فرمانے لگے کہ اللہ پاک خصوصی بچوں کو خصوصی والدین کے سپرد کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ بتایا کہ ان کا خود ایک خصوصی بچہ ہے جو دنیا بھر میں علاج کروانے کے باوجود انتہائی متحرک ہے، ڈاکٹر صاحب کے اس جذباتی رویے کو دیکھتے ہوئے ان والدین کو درپیش گہرے جذباتی تعلق اور چیلنجز کا پتہ چلتا ہے۔پاکستان میں ثقافتی اصول سماجی ظہور اور سماجی توقعات پر زور دیتے ہیں۔ خاص خصوصیات کے حامل بچے کو اکثر ایک بدقسمتی یا سزا کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو ماں کو مزید الگ تھلگ کر دیتا ہے۔ وہ وسوسے، ترس یا الزام تراشی کا نشانہ بن جاتی ہے۔ جن رشتہ داروں کو مدد کرنے کی پیشکش کرنی چاہیے وہ بجائے اس کے، بچے کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں، ملنے سے انکار کرتے ہیں،یا تجویز کرتے ہیں کہ اس حالت کے لیے ماں کی غلطی ہے۔خصوصی بچے کی دیکھ بھال غیر معمولی صبر، لچک اور توانائی کا تقاضا کرتی ہے۔ ان بچوں کی پیچیدہ طبی، جذباتی اور تعلیمی ضروریات ہوتی ہیں جن پر مسلسل توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں معیاری صحت کی دیکھ بھال، خصوصی تعلیم، اور معاون خدمات محدود ہیں، اس کا بوجھ بالکل ماں پر پڑتا ہے۔ اسے صحت کی دیکھ بھال کے ایسے نظام کو نیوی گیٹ کرنا چاہیے جو خصوصی ضروریات کو سنبھالنے کے لیے متحرک ہو، جبکہ اسینااہل ڈاکٹروں، ناکافی سہولیات اور غیر واضح رہنمائی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
خصوصی بچوں کے ساتھ والدین کی جدوجہد اور جذبات گہرے ہیں۔ مائیں بعض اوقات دعا کرتی ہیں کہ ان کے بچے ان سے پہلے اس دنیا سے چلے جائیں، ان کے جانے کے بعد ان کے بچے کی کسمپرسی کے خوف سے وہ اس قسم کی دل کو ہلا دینے والی دعا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ پریشانی رشتہ داروں کی طرف سے تعاون کی کمی کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے، جو اکثر بچے کے مستقبل میں بہت کم دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ والد بھی غیر معمولی لگن کا مظاہرہ کرتے ہیں، خاص طور پر بیوی کی کسی بیماری میں مبتلا ہونے کی بدولت وہ اپنی خصوصی بچی کی وہ ذمہ داریاں بھی پوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو ان کی والدہ انجام دیتی ہیں۔ان ماؤں پر مالی دباؤ ایک اور قابلِ توجہ پہلو ہے۔ خصوصی بچے کی پرورش کے لیے طبی دیکھ بھال، علاج، خصوصی آلات اور تعلیم کے لیے اہم وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سی ماؤں کو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کام کرنے اور اپنے بچے کی دیکھ بھال کے لیے گھر میں کام کاج کرنے کے علاوہ روزگار کے لیے اضافی جدوجہد بھی کرنا پڑتی ہے۔ایسے حالات ماؤں کو مزید الگ تھلگ رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
ان چیلنجوں کے باوجود، پاکستان میں خصوصی بچوں کی مائیں اپنے بچے کے لیے ان کی محبت کی وجہ سے ثابت قدم رہتی ہیں، جو ان میں اکثر ڈپریشن اور اضطراب کا باعث بنتا ہے جو بعدازاں انہیں ذیابیطس اور فشار خون کے مرض میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ان ماؤں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنا بوجھ اٹھائیں گی۔خاندان کی طرف سے مسلسل تعاون کا فقدان شاید ان کی جدوجہد کا سب سے تکلیف دہ پہلو ہے۔ اگرچہ دوست اور پڑوسی کبھی کبھار مدد کی پیشکش کر تے ہیں، خاندانی مدد کی مستقل عدم موجودگی ان ماؤں کو اپنے سفر میں اکیلا چھوڑ دیتی ہے، ان کی خوشیوں اور غموں میں زیادہ فرق دکھائی نہیں دیتا اور ایسا مزاج خصوصی بچے کی پرورش کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔
شدید مشکلات کے باوجود بھی یہ مائیں اپنے بچوں کے لیے لڑتی رہتی ہیں۔ وہ اپنے خصوصی بچوں کی بہتر دیکھ بھال، تعلیم اور مستقبل کے لیے کوشاں، وکیل، جنگجو، اور محافظ بن جاتی ہیں۔ وہ ایک ایسے معاشرے کو چیلنج کرتی ہیں جو اکثر اپنے بچے کو ایک ایسی طاقت کے ساتھ انسان سے کمتر دیکھتا ہے جو واقعی قابل ذکر ہے۔
ان ماؤں کی لچک محبت کی طاقت کو اجاگر کرتی ہے۔ وہ ظاہر کرتی ہیں کہ ہر بچہ، اپنی صلاحیتوں سے قطع نظر، محبت، دیکھ بھال اور مدد کا مستحق ہے۔ ان کی لڑائی صرف ان کے بچوں کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے تمام خصوصی بچوں کے لیے ہے، جو ستائش اور قدر کے مستحق ہیں۔ اس جنگ کی کامیابی کے لیے معاشرے اور خاندان کے افراد کو بدلنا ہوگا۔ انہیں مدد کی پیشکش کرنے کی ضرورت ہے، دور رہنے کی نہیں؛ہمیں ان ماؤں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، جو دنیا میں سب سے اہم کام انجام دے رہی ہیں۔ اس سہارے کے بغیر پاکستان میں خصوصی بچوں کی مائیں خاموشی سے دکھ سہتی رہیں گی، ان کی طاقت بے مثال ہے لیکن ہم ان کے درد کو تسلیم کرنے اور اس درد کی کیفیت جاننے سے قاصرہیں۔