کچے کے ڈاکوؤں کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا، اتنی آزادی کے ساتھ کچے کے ڈاکو وارداتیں کرتے ہیں اتنی آزادی کے ساتھ تو عام شہری سانس بھی نہیں لے سکتا۔ برسوں سے ان ڈاکوؤں کی وارداتیں جاری ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ آج تک کوئی بھی حکومت ان کے منظم انداز میں کارروائی کر کے جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ گذشتہ دنوں تو ان ڈاکوؤں نے حد کر دی جب پنجاب پولیس کے بارہ اہلکار شہید کر دئیے گئے۔ یہ تو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والی بات ہے۔ حکومتیں کب تک اس معاملے کو نظر انداز کرتی رہیں گی ۔ کیا ایسے معاملات چل سکتے ہیں۔ کیوں برائے نام کارروائی یا آپریشن کے نام پر پنجاب پولیس اپنے جوانوں کو جرائم پیشہ، دہشتگردوں کے ہاتھوں شہادت کا دکھ برداشت کرے گی۔ کیا پنجاب پولیس کے پاس وسائل کی کمی ہے، کیا اختیارات کی کمی ہے، کیوں اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا، کیوں کچے کے ان ڈاکوؤں کا پکا بندوبست نہیں کیا جاتا، کیوں اپنے جوانوں کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔ کیوں حکومت سنجیدگی سے ایک ہی مرتبہ اس مسئلے کو حل نہیں کرتی۔ رحیم یار خان میں کچے کے علاقے میں پولیس کی دو گاڑیوں پر ڈاکوؤں کے حملے میں بارہ اہلکار شہید ہوئے تھے۔
ڈاکوؤں نے کچے کے علاقے ماچھکہ میں بارش کے پانی میں پھنسنے والی پولیس کی دو گاڑیوں پر حملہ کیا تھا اس حملے میں بارہ پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ سندھ پولیس اور پنجاب پولیس مختلف وقتوں میں ان ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے عزم کا اظہار کرتی ہے لیکن آج تک کوئی ایسا آپریشن نہیں جس میں مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ان افراد کا پکا بندوبست نہیں ہو سکا۔ سینکڑوں ڈاکو دو صوبوں کی پولیس پر حاوی ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اغوا برائے تاوان کی کارروائیاں معمول بن چکی ہیں۔ سندھ حکومت کے اراکین قومی اسمبلی بھی حیران ہیں کہ آخر کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ کچے کے ڈاکو سوشل میڈیا بھی استعمال کرتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں، تاوان وصول کرتے ہیں تاوان ادا نہ کرنے والوں کی زندگی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ دیکھیں صوبائی حکومتیں کب اس معاملے میں سنجیدہ اقدامات اٹھاتی ہیں۔ اس وقت تو پنجاب حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے شہید ہونے والے بارہ پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کا خیال رکھے اور اس کے ساتھ ساتھ کچے کے ان بے رحم ڈاکوؤں کا صفایا کرنے کے لیے آپریشن کرے، جب تک علاقہ ان جرائم پیشہ افراد سے کلیئر نہیں ہو جاتا اس وقت تک آپریشن بند نہیں ہونا چاہیے ، ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنی چاہیے۔ صوبائی حکومت کو بے بسی دکھانے کے بجائے ان ڈاکوؤں کے لیے زمین تنگ کرنی چاہیے ۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہتے ہیں کہ ڈاکوؤں کے حملے میں ہمارا بھاری نقصان ہوا تاہم جوانوں کے حوصلے بلند ہیں، ہم بدلہ ضرور لیں گے۔
پولیس نے فوری جوابی کارروائی کی، ایک ڈاکو کو ہلاک اور پانچ زخمی کر دئیے۔ سندھ پولیس بھی ہمارے ساتھ ہے، ڈی آئی جی سکھر آئے ہوئے ہیں۔ کچے کے علاقے میں کروڑوں روپے کی لاگت سے بند بنائے گئے، چوکیاں بنیں، بلٹ پروف بکتر بند گاڑیاں دی گئیں، پولیس کے جوانوں کے ساتھ ساتھ مکینوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، کچے میں بیس کیمپ اور چوکیاں قائم کرنے کا مقصد نوگو ایریا ختم کرنا ہے۔ کچے میں بارش کے باعث پولیس کی گاڑیاں پھنسیں اور ڈاکوؤں نے موقع کا فائدہ اٹھایا، موسمی حالات کی وجہ سے پھنس جانے کو ناکامی قرار نہیں دے سکتے، بدلہ ضرور لیں گے۔ علاقے میں ہونے والے آپریشن میں اب تک پینسٹھ ڈاکوؤں ہلاک اور سو سے زائد زخمی کیے گئے، ہمارے جوانوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
آئی جی صاحب کو اگر سوشل میڈیا کی سرگرمیوں سے فرصت ملے تو اس واقعے کی ذمہ داری قبول کریں، اس علاقے میں ہونے والے آپریشن کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھیں، آپریشن کے راستے میں رکاوٹ کیا ہے، کس کی وجہ سے آپریشن میں تاخیر ہے، رکاوٹ آتی ہے سب چیزیں عوام کے سامنے رکھیں، بارش میں گاڑیوں کے پھنس جانے کو ناکامی نہ مانیں لیکن بارہ پولیس اہلکاروں کی شہادت تو ناکامی ہے یا نہیں۔ اس لیے عذر ڈھونڈنے کے بجائے اصل کام پر توجہ دیں۔ کہیں کچے کے علاقے میں بارش ہو اور کسی آئی جی کی گاڑی پھنس جائے تو کیا ہو گا ۔ صوبے کی پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے سوچیں ۔ پولیس نے شہریوں کی حفاظت کرنی ہے اگر پولیس خود ہی غیر محفوظ ہو جائے تو عام آدمی کا کیا بنے گا ۔
پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ ملتوی ہوا ہے اس حوالے سے پی ٹی آئی میں اندرونی طور پر بھی اختلافات پائے جاتے ہیں، بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے بھی برہمی کا اظہار کیا تھا لیکن جیسے جیسے وقت گذر رہا ہے تفصیلات سامنے آ رہی ہیں۔ اب تک تو یہ معلوم ہو رہا ہے نقص امن کے پیش نظر بانی پی ٹی آئی نے جلسہ ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا اس سلسلہ میں ان کی پارٹی قیادت سے جیل میں ملاقات موضوع بحث ہے۔ اس معاملے میں تمام سیاسی پہلو اپنی جگہ لیکن ملک امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے ہونے والے فیصلوں کو متنازع بنانے اور اس پر سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔ سیاسی سرگرمیاں ہر سیاسی جماعت کا حق ہے لیکن کوئی احتجاج شہریوں کی زندگیوں کو دائو پر لگانے، قومی املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ملک معاشی مسائل سے دوچار ہے سیاسی جماعتوں کو ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ملکی مفاد سب سے مقدم ہے۔
آخر میں اعظم چشتی کا کلام
جے توں وِکیا عشق بازار وی نئیں
جے توں چڑھیا اْتے دار وی نئیں
ایڈھا سستا سودا پیار وی نئیں
ایڈھا سوکھا لبھدا یار وی نئیں
کئی جنگل گاہنے پیندے نے
کئی دوزخ لنگنے پیندے نے
جیہڑا بن کے عاشق سْکھ ڈھونڈے
اوھدی قسمت وِچ دیدار وی نئیں
دل دِتیاں باجھ نہ پیار ملے
سِر دتیاں باجھ نہ یار مِلے
جے او ایس مْلوں وی مِل جاوے
ایتھوں سستا ہور وِپار وی نئیں
ایہ ایسی کھیڈ پیاراں دی
ایہ ایسا بحر محبت دا
کِسے کیتا ایویں پار وی نئیں
کوئی مَنیا اپنی ھار وی نئیں
کْجھ سمجھ نہ آوے لوکاں نوں
او کاہدے نال شہید کرے
ڈِٹھی یار دے ہتھ تلوار وی نئیں
پر خالی جاندا وار وی نئیں
جیہڑا ہو کے کھڑا کناریاں تے
چھلّاں دے نظارے لیندا اے
جندڑی دے ایس سمندر دے
او موتیاں دا حقدار وی نئیں
جَد ماہی پچھیا حال میرا
وَگ پئے پرنالے ہنجوواں دے
میں رہ سکیا خاموش وی نئیں
پر کر سکیا اظہار وی نئیں
سجنڑاں ایس چوٹھی دنیا نے
کی دے دِتا اے کی دے دینا اے
چل یار نوں راضی کر لَیئے
ایس ساہ دا کوئی اعتبار وی نئیں
مدتاں توں چرچا سْندے ساں
اج اکھیں ڈٹھا اے اعظم نوں
سالک وی نئیں مجذوب وی نئیں
کوئی مست وی نئیں ھشیار وی نئیں