غرناطہ، جبرالٹر اور مسجد قرطبہ کے تاریخی مقامات دیکھنے کے لئے جنوبی سپین کے شہر مالاگا کے ائیر پورٹ پرلینڈ کیا۔جبرالٹر کی چٹان مالاگا شہر سے ڈیڑھ گھنٹہ کی ڈرایئو پر واقع ہے۔جبل الطارق یا جبرالٹر وہ مشہور تاریخی مقام ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مسلمان جرنیل طارق بن زیاد نے سنہ 708ء میں یہاں کشتیاں جلا دی تھیں تاکہ ان کے سپاہیوں کے دلوں میں واپس لوٹنے کا خیال نہ رہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں برطانیہ اور سپین کی سرحدیں مل جاتی ہیں۔کیبل کار کا ٹکٹ خریدا اور شدید گرمی میں سیاحوں کی لمبی قطار میں لگ گئے۔ الیکٹرک کیبل پر چٹان جبل الطارق پہنچے ، بندروں نے استقبال کیا۔شرارتی بندر سیاحوں کے بیگ اٹھا لے جاتے ہیں کہ شاید اس میں کوئی کھانے کی چیز مل جائے اور خاص طور پر پلاسٹک کا بیگ تو چھین لیتے ہیں۔سپین یورپ کا گرم ترین ملک ہے مگر بحر روم کی خوشگوار ہوائیں شاموں کو موسم حسین بنا دیتی ہیں۔ جبرالٹر کی سمندری پٹی کے ایک طرف افریقہ اور دوسری طرف ہسپانیہ ہے۔ بحر روم اور بحر اوقیانوس کے بیچ اس تنگ سمندری پٹی سے طارق بن زیاد کی فوج کشتیوں میں داخل ہوئی۔مسلم سپہ سالارطارق بن زیاد کا تعلق افریقہ کے ایک قبیلہ بَربَر سے تھا اور بَنو اْمیّہ کے دور حکومت میں کئی ایک مشہور سپہ سالار تھے۔انہوں نے ہسپانیہ (سپین) میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کر کے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ انہیں سپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری راہنمائوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔اسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جما لیے۔ طارق بن زیاد نے جنگ کے لیے محفوظ جگہ کا انتخاب کیااور اس موقع پر اپنی فوج سے نہایت ولولہ انگیز خطاب کیا اورکہا کہ ہمارے سامنے دشمن اورپیچھے سمندر ہے۔ لہٰذاجنگ سے قبل طارق بن زیاد نے اپنے تمام بحری جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تا کہ دشمن کی کثیر تعداد کے خوف سے اسلامی لشکر بد دل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اسی صورت میں اسلامی فوج کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی تھا کہ لڑو، فتح یا شہادت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرو۔لہٰذا سات ہزار کے مختصر لشکر کے ساتھ پیش قدمی شروع کی۔ بعد ازاں جنگ وادی لکہ میں وزی گوتھ حکمران روڈرک کے ایک لاکھ لشکر کا سامنا کیا اور معرکے میں ایک ہی دن میں بدترین شکست دی اورجنگ میں روڈرک مارا گیا۔ ایک سال بعد موسیٰ بن نصیرکی آمد تک طارق بن زیاد ہسپانیہ کیگورنر بن چکے تھے۔ مسلمانوں کے بر سر اقتدار آنے کے بعد یہاں ایک سنہری دور کا آغاز ہوتا ہے جس کی بدولت تعلیم کی روشنی بیانتہاپھیلی اور ایک وقت ایسا آیا کہ سپین تعلیم اور فن و ثقافت کا مرکز بن گیا۔ سپین میں مسلمانوں کی بے شمار تعمیرات میں سے جودوقابل ذکرتعمیرات ہیں ان میں قصر الحمراء اور مسجد قرطبہ شامل تھیں۔طارق بن زیاد نے جس پہاڑ کے دامن میں اپنے قدم جما لیے،تاریخ کی زینت بننے والا یہ پہاڑ بعد میں طارق بن زیاد کے
نام سے جبل الطارق کہلایا،اور آج یہ پہاڑ انگریزی زبان میں جبر الٹر کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور جسے دو تہذیبوں کے درمیان پھنسی ہوئی چٹان بھی کہا جاتا ہے۔جبل الطارق تاریخی طور پر برطانوی افواج کے لیے انتہائی اہم مقام ہے اور یہاں برطانوی بحریہ کی بیس قائم ہے۔جبل طارق کو ‘‘ جبرالٹر ‘‘ کہا جاتا ہے۔انگریزی نام جبرالٹر عربی نام جبل الطارق سے ماخوذ ہے جو بنو امیہ کے نڈر جرنیل طارق بن زیاد کے نام پر جبل الطارق کہلایا جنھوں نے 711ء میں اندلس میں فتوحات حاصل کرنے کے بعد یہاں مسلم اقتدار کی بنیاد رکھی تھی۔اس مقام پر پہلی آبادی موحدین کے سلطان عبدالمومن نے قائم ہے جنھوں نے اس کی پہاڑی پر ایک قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا جو آج بھی موجود ہے۔ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ دور حکمرانی کے زوال کے بعد جبل الطارق متنازعہ چوٹی بن گئی۔جبل الطارق ہسپانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تنازعات کا اہم ترین سبب ہے اور برطانیہ کے زیر تسلط ہے۔جبرالٹر یا چٹان جبل الطارق پر کھڑے ‘‘ کشتیاں جلا دو۔ آگے فتح ہے پیچھے شہادت۔کشتیاں جلا دو۔ واپسی کو ناممکن بنا دو’’۔ سپہ سالار طارق بن زیاد نے مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکمرانی کی تاریخ رقم کر دی۔ علامہ اقبال نے ہسپانیہ سفر کے دوران اس شاندار فتح پر خاص کلام لکھے۔یہ کلام اندلس کے میدان جنگ میں طارق کی دعا سے منسوب کیا گیا۔
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی۔
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیئے اس کو خون عرب سے
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں نظر میں اذان سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہی کے جگر میں
کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرہ لا تذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے(ختم شد)۔