لگ رہا حکومت ہی جبری گمشدگیوں کی بنیفشری ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

Aug 24, 2024

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی  کے سوشل میڈیا انچارج  کے لاپتا بھائیوں کی بازیابی کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ یوں لگ رہا ہے کہ حکومت ہی جبری گمشدگیوں کی بینفیشری ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کچھ معلوم ہوا ہے؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہائی لیول پر رابطہ ہوا ہے، ہر لحاظ سے کوشش جاری ہے۔ بابر اعوان نے کہا کہ 5 قوانین بغاوت اور بغاوت پر اکسانے کو ڈیل کرتے ہیں، کہیں نہیں بتایا گیا قومی مفاد کیا ہے، مجھ سے پوچھیں گے قومی مفاد کیا ہے تو میں کہوں گا بجلی کی قیمت کم کرو، بلوچستان والا کہے گا مجھے گیس فراہم کرو، اس کا یہ قومی مفاد ہے۔  اظہر مشوانی کے بھائیوں کی بازیابی کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کے سربراہ عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔ سپرنٹنٹنٹ پولیس لاہور نے بتایا کہ آئی جی پنجاب کی جانب سے جے آئی ٹی بنی تھی، میں اس کا سربراہ ہوں۔ عدالت نے دریافت کیا کہ آپ نے کیا تفتیش کی ہے ابھی تک؟۔ ایس پی نے جواب دیا کہ جو فوٹیجز فراہمی کی گئی وہ قابل شناخت نہیں ہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پولیس افسر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے نادرا سے معاونت حاصل کی؟۔ پولیس افسر نے بتایا کہ جی بالکل ہم نے نادرا سے بھی معاونت حاصل کی اور ٹیلی کام کمپنیوں سے بھی ڈیٹا حاصل کیا، تفصیلی جیوفینسنگ کی گئی مگر کوئی خاص مواد ہمارے سامنے نہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ یوں لگ رہا ہے کہ حکومت ہی جبری گمشدگیوں کی بینفیشری ہے، کیسے اس ملک میں لوگ اغوا ہوتے ہیں اور چیف ایگزیکٹو کچھ نہیں کرتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا تھا وزیراعظم کو اس معاملے پر بریف کروں گا، چیف ایگزیکٹو کو ان معاملات کا پتا ہے مگر پھر بھی لوگ جبری طور پر لاپتا ہو جاتے ہیں، 3 ماہ ہو گئے ہیں دو بندے جبری طور پر لاپتا ہیں، ان کے خاندان پر جو گزر رہا ہوگا ہمیں اندازہ ہے، ریاست میں لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے مگر چیف ایگزیکٹو کچھ نہیں کررہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل تو وزیراعظم اور اٹارنی جنرل کی ملاقات سے کچھ نہیں نکلا؟۔ درخواست گزاروں کے کونسل نے عدالت سے استدعا کی کہ وزیر اعظم کو عدالت بلایا جائے۔ بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ آئین میں ریاست کے سربراہ وزیر اعظم جبکہ قانون کا سربراہ اٹارنی جنرل ہوتا ہے، ہم نے ایک پروسیس کے مطابق اٹارنی جنرل کو عدالت بلایا تھا، اگر حکومت کو ڈیو پراسس فالو نہیں کرنا تو پھر کیا کہہ سکتے ہیں، ان چیزوں سے ملک کی کتنی بدنامی ہورہی ہے ان کو اندازہ نہیں، اس کیس کو منگل تک کے لیے رکھ رہا ہوں مگر منگل کو میں نہیں ہوں گا، میرے نا ہونے کی وجہ سے اس کیس میں تاخیر نہیں چاہتا ہوں۔  عدالت نے سربراہ جے آئی ٹی اور ایس پی لاہور کو رپورٹس جمع کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے ایس پی لاہور سے مکالمہ کیا کہ پولیس کو یہ دیکھنا ہوگا کہ غیر پولیس نے پولیس کی وردی پہنی کیسی؟۔ اس پر ڈاکٹر بابر اعوان نے عدالت سے سخت آرڈر پاس کرنے کی استدعا کردی۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹریٹ کے ملازم محمد فیضان کی بازیابی کی درخواست پر (آئی جی) پنجاب کو آئندہ سماعت میں طلب کرلیا۔ سرکاری وکیل نے عدالت میں بتایا کہ ابھی تک کچھ پتا نہیں چلا، وکیل درخواستگزار نے کہا کہ 28 جولائی کو بندہ لاپتا ہوا اور 29 جولائی کو ان کے پاس درخواست دی گئی، ہماری درخواست کو انہوں نے دیکھا ہی نہیں۔اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کی کوئی ایس او پیز ہے کہ اگر کسی کا لکھا ہو تو آپ درخواست انٹرٹین نہیں کریں گے، وکیل درخواستگزار سے مزید دریافت کیا کہ آپ کی درخواست پر مقدمہ کب درج ہوا؟وکیل درخواستگزار نے بتایا کہ 10 اگست کو ہماری درخواست پر مقدمہ درج کر لیا گیا تھا، اس پر عدالت نے دریافت کیا کہ ان دو ہفتوں میں اب تک کیا ہوا؟ اس موقع پر بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی یہ صرف عدالت کو اتنا بتائیں کہ تفتیشی نے آخری تفتیش کب کی ہے؟عدالت نے اسٹیٹ کونسل سے مکالمہ کیا کہ ان کی کارکردگی کی لسٹ عدالت کو بتائیں، اگر ان کی قابلیت نہیں تو ان کو کیس سے ہٹایا جائے، انہوں نے مغوی کی بازیابی کے لیے کیا کیا وہ عدالت کو بتائیں۔ عدالت نے سرکاری وکیل سے دریافت کیا کہ کیا آپ اس تفتیش سے مطمئن ہیں؟ سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے مرکزی سیکرٹریٹ کے تمام ملازمین اور ان کے پڑوسیوں سے تفتیش کی ہیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آئی جی اسلام آباد ڈیوٹی پر واپس آگئے ہیں؟

مزیدخبریں