ملتان(سماجی رپورٹر) پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے 77 سال ہوگئے ہیں۔ وہ بزرگ اور وہ نسل اب بھی موجود ہے جس نے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا تھا۔اگست کا مہینہ آتے ہی لوگوں کے ذہن میں تحریک آزادی کے واقعات یاد ا نا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ واقعات لوگوں کے جذبہ آزادی اور قربانی کو تازہ بھی کرتے ہیں اور سننے اور پڑھنے والوں میں جذبہ حب الوطنی اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں اور جدوجہد پر فخر کا جذبہ بھی پیدا کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہارصدر نظریہ پاکستان فورم ملتان پروفیسر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی نے ہم نے پاکستان بنتے د یکھا میں کیا انہو ں نے کہا کہ میرے والدین مشرقی پنجاب کے علاقے ہریانہ کے معروف شہر روہتک سے تعلق رکھتے تھے۔ہمارے خاندان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ دو سو سال سے اس خاندان میں کوئی ان پڑھ نہیں ہوتا۔بچے بوڑھے یہاں تک کہ بوڑھی خواتین بھی سو فی صد پڑھی لکھی ہوتی ہیں۔اس وجہ سے تحریک پاکستان میں ہمارے خاندان کا کردار بہت نمایاں رہاہے۔ تحریک پاکستان میں خاندان کے تمام افرادنے ایک جذبے کے ساتھ حصہ لیا اور ہندوئوں کے مقابلے میں کم ہونے کے باوجود کبھی ہندوئوں سے دبے نہیں۔تحریک پاکستان کے دوران جلسے جلوسوں میں خاندان کے تمام لوگوں اور رشتہ داروں نے حصہ لیا۔ جب روہتک میں مسلم لیگ کی اپیل پر خواتین کے جلوس نکالے گئے تو میری والدہ نانی اور بہنیں سب اس میں شریک ہوتی تھیں۔اور میرے لئے یہ قابل فخر بات ہے کہ میں اس وقت اپنی والدہ اور نانی کے ہمراہ ہوتا تھا۔ میری بڑی ہمشیرہ ممتاز جہاں نے جامع مسجد روہتک سے پردے اور برقعہ میں ملبوس ہو کر خواتین اور مردوں سے خطاب کیاقیام پاکستان کے بعد جب ہندوئوں کی جانب سے فسادات اور مسلمان گھروں پر حملے شروع ہوئے تو اہل خاندان نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا اور بالاخر بے سروسامان کی حالت میںشہرکو چھوڑا۔ تمام مال و اسباب بند گھروں میں چھوڑکر مجبوری کے عالم میں نکلنا پڑا۔ لوگ سپیشل ٹرینوں کے ذریعے لٹے پٹے خالی ہاتھ پاکستان پہنچے میں نئی نسل سے یہ کہوں گا کہ وہ اپنے وطن کی قدر کریں۔اپنے بزرگوں سے جن کی تعداد اب کم ہوتی جا رہی ہے تحریک پاکستان کے واقعات سنتے رہیں اور وطن سے محبت کریںکہ ہم جو کچھ ہیںاس کی وجہ سے ہیں۔