’’صدارتی ایوارڈز ‘‘ اندھیر نگری چوپٹ راج 

ان دنوں یوم آزادی کے حوالے سے دئیے گئے صدارتی ایوارڈز زیر بحث ہیں اس حوالے سے آنکھیں خیرہ ہیں اور عقل دنگ ہے وطن کی خاطر جان جان آفریں کے سپرد کر دینے والے عزت مآب شہداء کو دئیے گئے صدارتی ایوارڈز سر آنکھوں پر لیکن اسکے علاوہ جن شخصیات کے نام سامنے آئے ہیں انہوں نے سر اور آنکھوں کو بوجھل سا کر دیا ہے غضب خدا کا ایسی ایسی شخصیات بھی صدارتی ایوارڈز کی مستحق قرار پائی ہیں جن کا نام پاکستان میں ای سی ایل لسٹ میں شامل ہے وطن عزیز میں غبن کے کئی کیسزانکے منتظر ہیں لیکن انہیں بیرون ملک صدارتی ایوارڈسے نوازا جا رہا ہے یہ بندر بانٹ کن معیارات کے تحت جاری ہے اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔۔۔
کیوان ہاشمی نے ایک موقع پر کیا خوب لکھا تھا 
 ’’ من از عمامہ و تسبیح و تاج مسند شاہی 
  اگر افتد بہ دست آدم خود خواہ می ترسم ‘‘
ترجمہ ( مجھے خوف آتا ہے اس عمامے ، تسبیح ، تاج اور تخت شاہی سے جو کسی خود غرض شخص کے ہاتھ لگ جائے )
 اس طویل فہرست میں کن کن پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں یہ ایک طویل بحث ہے فی الوقت ان سطور میں ہماری سوچ کا محور و مرکزفقط یہ ہے کہ دنیائے ادب میں صدارتی ایوارڈز کی مستحق کون سی شخصیات ٹھہری ہیں جن کو اس کار خیر کے لئے چن لیا گیا ہے اور کون سی شخصیات ہیں جن کی دنیائے ادب میں گراں قدر خدمات ہونے کے باوجود ان کا نام صدارتی ایوارڈ کی لسٹ میں شامل کیے جانے کے بعد با رہا نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس عظیم الشان افراد کی لسٹ سے خارج کر دیا جاتا ہے  !!!
 اس موقع پر نجانے کیوں بار بار اپنے بچپن میں دادی ، نانی سے سنا ہوا یہ پنجابی محاورہ بارہا یاد آ رہا ہے  
                   ’’انَا ونڈے شیرینیاں پج پج اپنیاں نوں ‘‘
 لمحہ فکریہ ہے کہ علم ٗکتاب ، قلم اور قرطاس کسی ہتھیار سے کم نہیں بلکہ کہیں زیادہ طاقت اور اہمیت کے حامل رہے ہیںاگر ہتھیار ظالم کا سینہ چیر سکتا ہے تو قلم تمام تر ظلم کے اندھیروں کا سینہ چیر کر گلرنگ سویرے کا اہتمام کر سکتا ہے بشرطیکہ قلم و قرطاس کا حق ایمانداری سے ادا کیا گیا ہو!  معروف مصنف نیاز فتح پوری ایک تلخ حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے’’ ادیب اور شاعر جن سے زیادہ بظاہر بیکار جماعت کوئی اور دکھائی نہیں دیتی اگرانکا وجود نہ ہو تومعاشرے  بگاڑ اور افراتفری کا شکار ہونے لگیں اور لطیف صحبتوں کا نام و نشان باقی نہ رہے اسلئے ہر چیز کی اہمیت کا اندازہ اسکی خدمت کے لحاظ سے متعین کیا جانا چاہئے اگر خدمات کا تناسب زیادہ ہے تو اسکا وجود بھی زیادہ اہمیت کا حامل سمجھا جانا چاہئے ‘‘ شاعر ادیب اپنی تمام تر بے توقیری اور نا قدری کے باوجود ہمیشہ معاشرے کے لئے جزو لاینفک رہے ہیں جنکی خدمات کے بغیر مقتدر و اعلی ہستیوں کا چنداں گزارا ممکن نہیں لیکن پھر بھی ناقدری کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے عرب میں شاعری کی منفرد صنف ’’ قصائد ‘‘ کا آغاز ہوا تو وجہ اسکے سوا اور کوئی نہ تھی کہ اسوقت بادشاہوں کو اپنے دربار میں ایسے شعراء کی ازحد ضرورت ہوا کرتی تھی جو انکی تعریفوں کے پل باندھتے رہیں انکی شان میں قصیدہ خوانی اور مدح سرائی کرتے رہیں ان ادوار میں بادشاہ سلامت اس عمل کو بہت پسند کیا کرتے تھے اور رعایا میں مقبولیت کے لئے مدح سرائی پر مشتمل یہ قصیدے بہت کام آیا کرتے تھے ایسے شعراء جن کا قصیدہ خوانی میں کوئی ثانی نہیں ہوتا تھا وہ دربار میں ایک خاص مقام رکھتے تھے بادشاہ کی جانب سے انعام و اکرام اور عزت و رتبے کے حقدار بھی ٹھہرتے تھے( جیسے آج کے دور میں حکومتی اعزازات کے حقدار ٹھہرتے ہیں) دبیر ( وزیر ) کے ساتھ ساتھ دربار میں ایک ایسا شاعر ہر دور میں لازم ہوا کرتا تھا یاد آ رہا ہے کہ سلطان محمود غزنوی کے دور میں دربار غزنی میں چار سو شعراء موجود تھے لیکن جو شہرت اور عظمت شہرہ آفاق شاہنامہ کے خالق فردوسی طوسی کے حصہ میں آئی وہ کسی بھی اور شاعر کو نصیب نہ ہو سکی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فردوسی نے شاہنامہ اپنی دلی امنگ سے بغیر کسی کی فرمائش کے لکھنا شروع کیا تھا اور تیس سال تک وہ اس عظیم کام میں مصروف عمل رہا ٗ شاہنامہ میں فردوسی نے ایران کے پہلے داستانی بادشاہ کیومرث سے لے کر آخری ساسانی بادشاہ زدگردسوم تک پچاس بادشاہوں کے سرگزشت لکھی طوس کے امراء میں سے بودلف اور علی ویلم نے فردوسی کی مدد کی اور اس کا حوصلہ بڑھایا شاہنامہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ فردوسی گردش حالات سے غربت و افلاس کی زد میں آ گیا دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ سلطان محمود غزنوی کے دربار میں جائے اور اپنی شاعری کے جوہر دکھائے فردوسی نے سلطان محمود غزنوی کی شان میں مدحیہ اشعار لکھ کر شاہنامہ میں شامل کئے اور دربار غزنی میں حاضر ہو گیا سلطان محمود غزنوی کو اپنی شان میں لکھے گئے اشعار بے حد پسند آئے بعد ازاں محمود غزنوی نے فردوسی سے شاہنامہ مکمل کرنے کی فرمائش کا اظہار کر دیا اور ساتھ ساتھ شاہنامہ مکمل ہو جانے پر فی شعر ایک اشرفی بطور انعام دینے کا وعدہ کر لیا روایت کے مطابق جب شاہنامہ مکمل ہوا تو فردوسی کو شاہنامہ میں موجود ساٹھ ہزار اشعار کے عوض ساٹھ ہزار اشرفیوں کی امید تھی لیکن محمود غزنوی نے ساٹھ ہزار اشرفیوں کی بجائے فقط بیس ہزار درہم بھیجے اس بے توقیری سے دل شکستہ ہو کر فردوسی غزنی سے نکل گیا اور دکھ کی کیفیت میں اس نے محمود کی’’ ہجو‘‘کہی اور روپوش ہو گیا اس ہجو کا محمود غزنوی کی ساکھ اور حالات پر گہرا اثر پڑا جس کے بعد محمود نے اپنے وزیر حسن میمندی کے مشورے سے فردوسی کو ساٹھ ہزار اشرفیاں بھجوانے کی کوشش کی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب سلطان کے درباری فردوسی کو ڈھونڈنے کے بعداشرفیاں لے کر پہنچے تو فردوسی جہاں فانی سے کوچ کر چکا تھا فردوسی کی بیٹی کو یہ انعام پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو اس نے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا اسوقت انعامات کے معاملے میں یہ نا انصافی آجکل کے صدارتی ایوارڈز کی سمجھ سے بالا تر بندر بانٹ شائد دو مختلف چیزیں نہیں ہیں !!!
یہ فقط ایک واقعہ ہے لیکن تاریخ ایسے تکلیف دہ واقعات سے بھری پڑی ہے جو اس سچائی کو ثابت کرتے ہیں کہ شاعر اور ادیب ہمیشہ سے بے توقیری اور ناقدری کا شکار رہے ہیں لیکن پھر بھی جلد یہ بدیر ثابت ہو کر رہتا ہے کہ ان کا وجود ہر معاشرہ کے لئے توقیر ٗعزت اور اہمیت کا حامل ہے قلم اور قلمکار سے فائدہ حاصل کرنا تو ہمیشہ سے آسان عمل رہا ہے لیکن سمجھ سے باہر ہے کہ قلمکار کو اس کا حق دینا مقتدر ہستیوں کے لئے ہمیشہ تکلیف کا باعث کیوں رہا ہے؟
 ادب کی بے ادبی کے ایسے افسوسناک اور اندوہناک واقعات کی فہرست بہت طویل ہے ہمت نہ ہارتے ہوئے اس معاملے کے کرتا دھرتائوں سے گزارش ہے کہ’’ ادیب کی عزت ‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایوارڈز کے حوالے سے معیارات  پر نظر ثانی کی جائے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے اگر اس مقصد میں کامیابی مل گئی تو اس میدان میں نئے آنے والوں کو یہ امید مل سکے گی کہ اس پرخار راستے پر چلنا یقینا مشکل ہے لیکن تھوڑی جدوجہد سے ہموار راستے بھی میسر ہونگے اور قلم و قرطاس کی اس دنیا میں نئے آنے والوں کا مستقبل روشن بھی ہو سکتا ہے یہاں اندھیروں کاراج نہیںہے اور اندھیرنگری تو بالکل بھی نہیں!!!

ای پیپر دی نیشن