وطن عزیز میں ایک بڑا بحران پانی کے متعلق پیدا ہونے کو ہے۔ جہاں ایک طرف ماہرین توجہ دلاتے آئے ہیں کہ پاکستان آنے والے دریاؤں پر ھندوستان ڈیم بنا کر ہمیں پیاسا مارنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ وہاں دوسری طرف ہم خود موجودہ پانی کے ریسورسز کوتباہ کرنے کے درپے ہیں جس سے اب راولپنڈی، اسلام آباد کے جڑواں شہروں میں بھی پانی کا بحران دستک دے چکا ہے۔
جب اسلام آباد کی بنیاد رکھی گء تو شہر میں پانی کی سپلائی کے لیے راول ڈیم کو مختص کیا گیا بعدازاں سملی ڈیم سے پانی کی لائنیں لائی گئیں جب 90 کی دہائی میں یہ سب ناکافی محسوس ہوا تو اسلام آباد انتظامیہ نے خانپور ڈیم اور غازی بروتھا سے پانی کی ایک بڑی پائپ لائن لانے کا منصوبہ بنایا اس میں راولپنڈی کینٹ کو بھی شامل کیا گیا اور پھر اس پر عمل درآمد ہوا بھی جس سے اس وقت پانی کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں پچھلے 24 سالوں میں جڑواں شہروں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے میں زلزے اور کے پی کے میں امن وامان کی خرابی کے باعث آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد سے آبادی کئی گنا بڑھی اور زیرزمین ذخائر میں نہ صرف تیزی سے کمی ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کے زہریلا ہونے کا مسئلہ بھی سامنے آ رہا ہے۔ راول ڈیم میں سیوریج کا پانی ڈالا جا رہا ہے۔ اسی طرح دریا? سواں ، کورنگ اور نالہ لئی جب سواں پل کے پاس ملتے ہیں تو ان میں فیکٹریوں کے زہریلے کیمیکل سے پانی سے بدبو پھیل رہی ہے۔ یہ کیمیکل زمین کی تہوں میں رس رس کر سارا زیرزمین پانی آلودہ اور کیمیکل زدہ کر رہے ہیں۔ یہ دریا بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے ساتھ ساتھ اور اڈیالہ روڈ کے متوازی چلتا ہے تو اس کے اطراف میں انتہائی گنجان آبادی ہے۔ اڈیالہ روڈ ، مورگاہ سیمت اس وسیع اور گنجان آبادی ایریا کے سب ٹیوب ویل اسی دریا کے ساتھ ہیں یہ ایک بہت خطرناک صورت حال ہے کہ زیر زمین پانی اب پینے کے قابل نہیں رہا اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ ایسی بدترین آلودگی جو انسانی زندگی کو نقصان پہنچائے اس کے سدباب کے لیے پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی 1997 میں قائم کی گئی راولپنڈی میں اسکے افسران پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کے ماحول پر پرے اثرات ختم کرنے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ اگر اس وقت بھی پانی کے ذخیروں کا تحفظ نہ کیا گیا اور فیکٹریوں کو کیمیکل گرانے سے نہ روکا گیا تو نہ صرف پیپاٹائیٹس اور کینسر کے امراض کی رفتار کئی گنا بڑھ جائے گی۔ بلکہ جو پینے کے پانی کی صورتحال اس وقت چکلالہ غریب آباد سے لے کر خیابان تنویر تک کے علاقے کی ہے کہ پینے کا پانی بھی کھنہ پل سے ٹینکروں میں لایا جا رہا ہے یہ صورت حال پورے شہر کی ہو جائے گی۔