تحریک پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے جولائی اور اگست کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو اپنی تاریخ سے بالکل دلچسپی نہیں۔ جو قومیں اپنا ماضی بھول جاتی ہیں وہ اس نابینے کی طرح ہوتی ہیں جسے راستہ نظر نہیں آتا بینائی سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ بھٹکتا پھرتا ہے۔ ماضی کی تاریخ بھولنے والی اقوام کا مستقبل غیر یقینی بن جاتا ہے۔ انتہائی ضروری کہ ہم ماضی کی تاریخ اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں اور ان کی قربانیوں کو یاد بھی رکھیں۔ زندہ بھی رکھیں اور ان کے چھوڑے ہوئے مشن کو بھی جاری رکھیں، جن مقاصد کے لئے یہ خطہ آزاد ہوا۔نوجوان ہی ہمارا مستقبل ہیں۔ اگر نوجوان ان چیزوں سے دور ہو گئے تو ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔ سقوط ڈھاکہ 1971ء کا سانحہ ہمارے سامنے ہے۔ یہی کمزوریاں تھیں جن کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان کمزوریوں پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم نے اپنی نوجوان نسل کو تیار کرنا ہوگا۔ عقیدے اور نظریے کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اپنی نوجوان نسل کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جولائی اور اگست کی بڑی اہمیت ہے۔ ان دو ماہ کے تاریخی ایام میں ہماری قربانیوں کی ایک تاریخ ہے۔ 8جولائی تحریک آزادی کشمیر کے بہادر و خوبصورت نوجوان کمانڈر برہان مظفر وانی کو بھارتی فوجیوں نے بیدردی سے شہید کیا۔ 10جولائی تحریک آزادکشمیر کے نامور لیڈر سردار عبدالقیوم خان وفات پا گئے تھے۔ 13جولائی ہر سال ہم سرینگر کے 23شھداء کی یاد میں شھداء کشمیر بناتے ہیں۔ 19جولائی قرارداد الحاق پاکستان کے دن کے طور پر بناتے ہیں۔ 31جولائی کشمیر کے ایک عظیم لیڈر سردار محمد ابراہیم خان جن کی عسکری و سیاسی قیادت میں موجودہ خطہ آزادکشمیر آزاد ہوا۔ یہ جولائی کے اہم اور تاریخی ایام ہیں۔ اگست کی 14تاریخ کو طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد پاکستان جیسی نعمت ہمیں ملی۔ دو قومی نظریے اور تحریک پاکستان سے متاثر ہو کر کشمیری مسلمانوں نے بھی اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی مہاراجہ ہری سنگھ سے جان چھڑانے اور آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہونے کی خاطر جہادِ آزادی کا آغاز ہوا۔ کشمیریوں نے قیام پاکستان کی خوشی میں جشن بنایا۔ رات چراغاں کیا۔ شکرانے کے نوافل پڑھے۔ قیام پاکستان کے دوسرے دن 15اگست 1947ء سرفروشوں نے شھداء، غازیوں اور مجاہدوں کی سرزمین راولاکوٹ کی سیاسی ٹیکری (دارالجہاد) پر ہزاروں لوگ جمع ہوئے۔ اللہ اکبر پاکستان زندہ باد پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ کے نعروں کی گونج اور پاکستان کے سبز ہلالی پرچموں کی بہار کے ساتھ یہ عہد کیا گیا کہ ہم بزور طاقت یہ خطہ آزاد کرائیں گے جہاد کا آغاز کرتے ہیں۔ غیر مسلم مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت سے بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ شرکاء اجلاس اور مقررین نے دفعہ 144کو پاؤں تلے روندا۔ جمعۃ الوداع کا مقدس دن تھا جوش و جذبے اور شوق شھادت کا ایک قابل دید منظر تھا۔ لوگوںکا جمِ غفیر تھا۔ مختلف علاقوں سے قافلوں کی شکل لوگ شریک ہوئے۔ ڈوگرہ سامراج ہری سنگھ کو للکارتے ہوئے اعلان جہاد ہوا۔ جلسہ عام میں ہر مقرر تقریر سے پہلے دفعہ 144کے نوٹیفکیشن اور اپنے وارنٹ گرفتاری کو پاؤں تلے روندتا اور پھر پرجوش تقریر کرتا۔ مختلف وعہدوں کے عسکری رینکس اور فوجی وردیاں پہنے برٹش آرمی سے واپس آئے ہزاروں افراد نے اللہ اکبرکی گونج میں مارچ پاسٹ کرتے ہوئے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو سلامی دی پرجوش اور قابل دید منظر تھا ایسا جذبہ جسے اب کوئی شکست نہیں دے سکتا تھا۔ اس تاریخی اعلان جہاد کے ساتھ ہی ڈوگرہ حکومت نے سابقہ ریاست پونچھ کے مختلف علاقوں سے متحرک مسلمان لیڈروں کو بڑی تعداد گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ ڈوگرہ فورسز کی تعداد میں دو گنا اضافہ کر دیا۔ 25اگست غازی ملت سردار محمد ابراہیم مرحوم اہم مشاورت کے بعد تحریک کو منظم کرنے کی خاطر وارنٹ گرفتاری کے باوجود سرینگر سے خفیہ نکل کر مظفرآباد، ایبٹ آباد اور مری پہنچ گئے۔ مری کے فیئر فیلڈ ہوٹل میں اپنا خفیہ ہیڈ کوارٹر بنا کر جہادِ آزادی کو منظم کیا علاقے کو سیکٹرز مین تقسیم کرکے سیکٹر کمانڈر مقرر کئے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص صوبہ کے پی کے سے اسلحہ اور دیگر جنگی ساز و سامان جمع کرکے بروقت مجاہدین تک پہنچایا۔ وار کونسل بنا کر اہم فیصلے کئے گئے۔ 7بریگیڈ فوج کھڑی کی گئی جس نے برٹش آرمی سے واپس آئے تجربہ کار لوگوں کی قیادت میں ہر اول دستے میں جہادِ آزادی کو منظم کیا۔ برق رفتاری سے مجاہدین نے کوہالہ سے بارہمولہ اوڑی، کوہالہ سے پونچھ شہر آزاد پتن سے پونچھ شہر، آزاد پتن اور ہولاڑ سے مینڈھر اور راجوری منگلا سے بھمبر کے آخری کونے اور سیالکوٹ تک کا علاقہ فتخ کر لیا۔ بروقت مجاہدین کی مدد نہ ہونے پر اوڑی بارہمولہ پونچھ شہر کے نزدیک کے علاقے مینڈھر اور راجوری تحصیلوں کے بڑے علاقے پر بھارت نے واپس قبضہ کر لیا اورپھر سیز فائر ہو گیااور کشمیریوں کے درمیان خونی لکیر کھینچ لی گئی۔ راولاکوٹ سیاسی ٹیکری سے 15اگست جہاد آزادی کے اعلان کے بعد پورے خطے میں آزادی کی ایک لہر چل پڑی۔ پورے علاقے میں جہادی فضاء پیدا ہو گئی۔ 15اگست کے صرف ایک دن بعد 17اگست 1947ء ضلع سدھنوتی میں جسہ پیر کے مقام پر مولانا عبدالعزیز تھوراڑوی اور مولانا یوسف کی سرپرستی میں مجاہدین کا اجلاس ہوا جس میں جہاد آزادی کے لئے حلف ہوا۔ پھر ایک دن کے بعد 18اگست سدھنوتی کے ہی ایک اور مقام بلوچ میں کرنل سردار محمد حسین خان اور کرنل ھدایت خان نے مجاہدین کا اجلاس بلا کر ہوم گارڈ تنظیم بنائی گئی۔ اجلاس میں جہاد شروع کرنے پر حلف ہوا۔ 23اگست باغ کے ایک تاریخی مقام نیلہ بٹ دھیرکوٹ میں جلسہ عام منعقد ہوا جس میں علاقے کے بڑی تعداد مجاہدین شریک ہوئے۔ اس وقت کے پرجوش نوجوان سردار عبدالقیوم خان نے پرچوش تقریر کی۔ اعلان جہاد کیا۔ حلف اٹھایا گیا۔ گھر واپس جانے کے بجائے باغ جانے اور مظاہرہ اور جلسہ کرکے دفعہ 144کی خلاف ورزی کا اعلان ہوا۔ 26اگست باغ ہڈا باڑی کے مقام پر بہت بڑا جلسہ عام ہوا۔ دفعہ 144کو پاؤ تلے روندا گیا۔ ڈوگرہ فوج نے جلسہ عام پر فائرنگ کی جس سے چھ مسلمان شھید ہو گئے۔ 19اگست دوتھان کے مقام پر پونچھ ہجیرہ سے آنے والی ڈوگرہ فوج کے ساتھ معرکہ ہوا جس میں 5مسلمان شھید ہو گئے۔ تاریخی عسکری جدوجہد میں عملی جہادِ آزادی کا آغاز ہو گیا۔ کیپٹن حسین خان شھید جیسے دلیر سپہ سالار وں نے دشمن کو رکنے نہیں دیا۔ دشمن سرینگر سے صرف 30میل اور پونچھ شہر میں محصور ہو کر رہ گیا۔ بد قسمتی کے پاکستان کے پہلے انگریز آرمی چیف اور کابینہ کے کچھ وزراء نے مجاہدین کشمیر کی بروقت مدد کے فیصلے میں رکاوٹ پیدا کی ا ور مکمل کشمیر آزاد نہ ہو سکا۔ اقوام متحدہ کے ذریعے سیز فائر پر دستخط کرکے خونی لکیر کو تسلیم کر لیا گیا۔ قارئین محترم ہم ہر سال مندرجہ بالا قومی دن بناتے ہیں۔ ماضی میں سیاسی عصبیت کی بنیاد پر تحریک آزادی کشمیر کے نقطہ آغاز کو متنازعہ بنا کر بلا ضرورت غیر حقیقی انداز سے بحث ہوتی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب یہ مسئلہ حل ہو چکا کہ 15اگست ہی سیاسی ٹیکری (دارالجہاد) راولاکوٹ تحریک آزادی کا نقطہ آغاز ہے۔ سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کا ایک یادگار اور تاریخی فیصلہ ہے جس میں انہوں نے اپنے دور حکومت میں حکومتی سطح سے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا تھا کہا راولاکوٹ کی سیاسی ٹیکری تحریک آزادی کا نقطہ آغاز ہے۔،ان کے والد گرامی راجہ حیدر خان نے اس جگہ کو دارالجہاد قرار دیا ہے۔ہر سال اس مقام پر 15اگست کو یادگار تقریب منعقد ہوتی ہے۔ یادگار شھداء میموریل کمیٹی کے بانی سربراہ سابق صدور حیات خان، صدر سردار محمد انور خان، سردار عبدالخالق خان ایڈووکیٹ نے سیاسی ٹیکری کے مقام پر یادگار تعمیر کراتے ہوئے خوبصورت مینار کشمیر، لائبریری اور سمپوزیم قائم کیا ہے۔ ان تینوں شخصیات نے تاریخی خدمات انجام دی ہیں۔ انہیں خارج عقیدت اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ سردار عبدالخالق ایڈووکیٹ طویل عرصے سے اس یادگار کی تعمیراور انتظام کا کام سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس یادگار کی عمارت میں شھداء کشمیر کی مکمل فہرست اور تاریخ محفوظ کی ہے۔ اس تاریخی دن کی مناسبت سے ہم تمام شھداء کشمیر، غازیوں، مجاہدوں، زخمیوں، عسکری کمانڈروں اور قومی ہیروز کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں