پناہ گزین افغان خواتین 

پاکستان حکومت نے 1979 میں سوویت یونین اور افغانستان کے مابین جنگ کو پیش نظر رکھتے ہوئے افغان شہریوں کو پاکستان میں پناہ دینے کا فیصلہ کیا۔ 2001 کے آخر تک ان کی تعداد پاکستان میں چار ملین تک پہنچ گئی تھی جبکہ 2002میں تقریباَ 75 فیصد افغانستان لوٹ گئے تھے۔
2021 میں افغانستان میں طالبان حکومت آنے کی وجہ سے افغانیوں کی بڑی تعداد افغانستان چھوڑکر دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔جن میں 23فیصد افغان خواتین اور 23فیصد لڑکیاں پناہ گزین بننے پر مجبور ہوئیں جبکہ مرد 26 فیصد اور لڑکے 28فیصد شامل تھے۔ پناہ گزینوں کی زیادہ تعداد پاکستان اور ایران منتقل ہوئے۔ بے گھر افراد کو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے پناہ گاہ کی تلاش کا سامنا کرنے کے علاوہ نوکریوں اور غذائیت سے بھرپور خوراک کی تلاش تک بہت سے چیلنجر کا سامنا ہے۔ پناہ گزین خواتین اور لڑکیوں کو بنیادی صحت کے بہت سارے مسائل کا سامنا ہے۔  اکتوبر 2023 میں امریکہ کے اعداد و شمار کے مطابق 3.7 ملین افغانی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ جبکہ پاکستانی حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق 2023 میں 4.4 ملین افغانی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ جن میں تقریباَ 1.3 ملین رجسٹرڈہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے غیر رجسٹرڈ افغانیوں کو 01 نومبر 2023 تک پاکستان سے نکل جانے کا کہا گیا۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق جون 2024 تک 575,000 افغانی پاکستان سے افغانستان روانہ ہو گئے تھے جن میں 89 فیصد غیر رجسٹر ڈ افغانی تھے۔ 
 جنگ کے پیش نظر اپنے گھر بار چھوڑ کر آنے والے افغان باشندوں کو پاکستان میں پناہ تو مل گئی لیکن ان کے مسائل میں خاطرخواہ کمی واقع نہ ہوئی بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔پناہ گاہ کی تلاش، سماجی ،ثقافتی اور مالی رکاوٹوں کی وجہ سے تعلیم کے محدود وسائل کا سامنا بنیادی مسائل میں شامل ہیں۔ اسی طرح صحت بالخصوص زچگی کے دوران زچہ بچہ کی سہولیات کا فقدان، روزگار کی عدم سہولت، سماجی تنہائی جس کی بڑی وجہ زبان کا مختلف ہونا اور ثقافتی تفریق شامل ہے۔ جوخواتین غیر رجسٹرڈ تھی انہیں انصاف لینے میں مشکلات کا سامنارہتا تھا اور عدم تحفظ بھی ان کے لئے ایک بڑا مسئلہ تھا۔ 
نقل مکانی کے وقت جو خواتین یا لڑکیاں اپنے خاندانوں سے کٹ گئی انہیں جنسی ہراسانی اور غیر محفوظ ہونے کا خدشہ ہر وقت ذہنی اذیت میں مبتلا رکھتا تھا۔ بہت سی کم سن بچیوں کو زبردستی کم عمری کی شادیاں کرنی پڑی جس سے نہ صرف ان کی زندگیاں متاثر ہوئیں بلکہ اْن کی آنے والی نسلیں بھی ذہنی طور پر استثنائیت کا شکار ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے کنونشن1951 جو کہ پناہ گزینوں کے متعلق ہے ، میں پناہ گزینوں کو کسی بھی نا موافق حالات میں مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ 
پاکستان اور ایران کے علاوہ افغان خواتین اور لڑکیوں کو سویڈن ، ڈنمارک اور فن لینڈ نے بھی پناہ فراہم کی ہے۔ 06 دسمبر 2022 کو سویڈن حکومت نے افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دی۔ دسمبر 2022 میں ہی فن لینڈ حکومت نے تمام افغان خواتین اور لڑکیوں، جنہوں نے پناہ کے لئے درخواست دی ، کو فن لینڈ میں آنے کی اجازت دی۔ اسی طرح فروری 2023 میں ڈنمارک کے پناہ گزین بورڈ نے خواتین اور لڑکیوں کو ڈنمارک آنے کی اجازت دی اور ساتھ ہی اگست 2021 سے فروری 2023 کے دوران جن خواتین اور لڑکیوں نے پناہ کے لئے درخواست دی تھی اْن کو بھی موقع فراہم کیا گیا۔ 
پاکستان اور ایران چونکہ افغانستان کے پڑوسی اور مسلم ممالک ہیں اس لئے زیادہ تر افغان پناہ گزین انہیں دو ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ لیکن افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پاکستان حکومت نے بارہا دفعہ سرحد پار سے دہشتگردی کے واقعات کی تفصیل طالبان حکومت سے شئیر کیں لیکن افغان حکومت کی جانب سے حوصلہ افزاء پیش رفت نہ ہو سکی۔ دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے اور پاکستان میں امن کی صورت حال کو یقینی بنانے کے لئے فیصلہ کیا کہ غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو فوری افغانستان بھجوایا جائے۔ لیکن اس صورتحال میں خواتین اور لڑکیوں کو دوبارہ عدم تحفظ اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ افغانستان میں طالبان حکومت خواتین کی آزادی اور حقوق کو تحفظ فراہم کرنے میں بْری طرح ناکام نظر آتی ہے۔ 
پڑوسی ممالک بشمول دیگر یورپین ممالک میں پناہ گزینوں اور پناہ کی متلاشی افغان خواتین اور لڑکیوں کو بھی بنیادی صحت کی دیکھ بھال سمیت جنسی اور تولیدی نگہداشت تک رسائی میںکئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ افغانستان کے اندر بھی صورتحال اس سے مختلف نہ ہے بہت سے خاندان اندرونی ہجرت کر کے محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی صورتحال میں پیچیدگی اور مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں افغان لڑکیوں کا مستقبل نہ صرف خطرے میں ہے بلکہ انہیں اپنی بقاء￿ کے حوالے سے بھی بہت سے گھمبیر چیلنجز کا سامنا ہے۔ 
پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان اور ایران اندرونی و خارجی مسائل کا شکار ہیں اورافغان پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد کو سنبھالنے سے قاصر ہیں۔ اقوام متحدہ کو افغانستان کے اندرونی مسائل اورخاص طور پرافغانستان میں طالبان حکومت سے اپیل کرنی چاہیے کہ وہ خواتین کو تعلیم و صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ پْر امن اور تفریح کا ماحول فراہم کرے تاکہ بڑی تعداد میں افغان خواتین ملک کو چھوڑنے کی بجائے افغانستان میں اپنا مستقبل محفوظ بنا سکیں۔ پاکستان میں افغان پناہ گزین خواتین اور لڑکیوں کو حکومت کی جانب سے محفوظ ماحول فراہم کیا گیا ہے تاہم حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ تمام افغان پناہ گزینوں کی ضروریات کا احسن طریقے سے خیال رکھ سکے۔ اس لئے غیر رجسٹرڈ افغان خاندانوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ وقت کی ضرورت بن چکا تھا لیکن اس میں بھی جلد بازی کا عنصر واضح نظر آتا ہے۔ پناہ گزینوں کی واپسی کا جامع پلان مرتب نہ کیا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پالیسی بنائی گئی۔ جس کی وجہ سے بہت سے افغان پناہ گزین مشکلات کا شکار ہیں۔ حکومت پاکستان کو افغانستان میں طالبان حکومت کو اعتماد میں لیتے ہوئے مشترکہ حکمت عملی سے افغان پناہ گزینوں اور بالخصوص خواتین کے تحفظ کے لئے فیصلے لینے کی ضرورت تھی۔ 
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے صنفی مساوات خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے اعدادوشمار مرتب کر رہا ہے تاکہ بدلتے ہوئے حالات اور 2021 کے بعد رونما ہونے والے رجحانات اور واقعات پر قابو پایا جا سکے۔ پاکستان اور ایران کے علاوہ کچھ افغان خاندان تاجکستان ، ترکمانستان اور ازبکستان میں بھی پناہ کے متلاشی ہیں۔ افغانستان میں طویل جنگ کے ساتھ ساتھ طالبان کے حالیہ قبضے اور ملک کو شدید خشک سالی کا سامنا ہے حالیہ برسوں میں غربت اور غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے صنفی بنیا د پر عدم مساوات بڑھ رہی ہے ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ، افغانستان سنگین انسانی اور مالی بحران کا شکار ہے خواتین کو ملازمتوں سے زبردستی فارغ کیا گیا اور بچیوں کی تعلیم اور بنیادی ضروریات تک محدود رسائی کا سامنا ہے۔ 

shumailadhillon423@gmail.com

ای پیپر دی نیشن