گرین پاکستان انیشیٹو – زراعت کے شعبے کی ترقی کی طرف ایک مثبت قدم

 پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے پاکستان کا رقبہ 79.6 ملین ایکڑ ہے جس میں سے تقریباً 22 ملین  ایکڑ زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 10 بلین ڈالر کی زرعی اجناس  درآمد کی جاتی ہیں۔ 30.8 ملین میٹرک ٹن کی کل طلب کے مقابلے میں پاکستان کو گندم کی پیداوار میں 4 ملین میٹرک ٹن کی کمی کا سامنا ہے۔مندرجہ بالا حقائق کے پیش نظر، جی پی آئی پاکستان میں زرعی پیداوارکو بڑھانے اور ملک بھر میں بنجر زمینوں کو آباد کر کے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔

 جی پی آئی کے ذریعے حکومت نے لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم  (لمز)کا استعمال کرتے ہوئے ملک بھر سے اعداد و شمار کو یکجا کر کے اور اسے تازہ ترین سیٹلائٹ ڈیٹا کے ساتھ مربوط کر کے ، پنجاب، سندھ اور کے پی کے صوبوں میں 4.8 ملین ایکڑ "بنجر" زمین کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے منتخب کیا  ہے۔ مستقبل میں نجی شعبے یا غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے کاشت کے لیے کل 864,000 ایکڑ مختص کیا گیا ہے اور ملکی اور بین الاقوامی کمپنیوں کوفلحال 250,000 ایکڑ سے زائد اراضی تک رسائی دی گئی ہے۔ یہ زمین صرف زراعت کے لیے استعمال کی جائے گی اور ہمیشہ صوبوں ہی  کی ملکیت رہے گی ۔
 اس سلسلے میں صحرائے چولستان جی پی آئی کی ابتدائی توجہ کا مرکز ہے۔ پاک فوج نے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کی مدد سے صحرائے چولستان میں 50,0000 ایکڑ سے زائد بنجر زمین کو کاشت کے لیے ہموار کرلیاہے۔ جدید زرعی آلات اور انتہائی موثر آبپاشی کے نظام کے استعمال کے ساتھ،( بشمول ڈرپ ایریگیشن سسٹم، رین گن، سنٹرل پیوٹ سسٹم اور سپرنکلر سسٹم )جدید ٹیکنالوجیز، جسے "سمارٹ فارمنگ" بھی کہا جاتا ہے، کو جی پی ا?ئی کے تحت کاشت کاری میں استعمال کیا جا رہا ہے۔  جی پی آئی کے تحت پاک فوج غذائی تحفظ  کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ اس سے ملک کا زراعت سے منسلک درآمدات پر انحصار کم ہو جائے گا۔ جدیدٹیکنالوجی اورآبپاشی کے ایک انتہائی موثر نظام کے استعمال سے اور سب سے اہم بات یہ کہ پاک فوج کے غیر متزلزل عزم اور لگن سے چولستان کا صحرا سر سبز و شاداب ہو جائے گا۔ یہاں یہ بات  اہم ہے کہ  ایس آئی ایف سی براہ راست وزیر اعظم پاکستان کے تحت کام کر رہی  ہے۔ فوج کو صرف زمین کے استعمال کا حق دیا گیا ہے جو کہ منافع میں حصہ دار نہیں ہو گی اور نہ ہی فوج کوئی زمین خریدے گی۔
* مزید برآں، سیٹلائٹ ڈیٹا کے ساتھ سروے کے اعداد و شمار کو شامل کرکے، جی پی آئی کسان کو زمین کی غذائیت کی ضروریات، پانی کی ضرورت، کھاد، اور کیڑے مار ادویات کے استعمال کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ ان اقدامات سے کسان کم وسائل کا استعمال کر کے بچت کر سکے گا  اور  اسی طرح زیادہ پیداوار بھی لے سکے گا۔ لاگت میں کمی اور پیداوار میں اضافے کے ذریعے کسان کے مجموعی منافع میں تقریباً 40 فیصد اضافہ ہوگا ۔
ایس آئی ایف سی اور جی پی آئی اپنی سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی ذمہ داریوں سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ زراعت کے شعبے میں کام کرنے کے لیے پیشہ ورانہ صلاحیت کو بڑھانے لیے بہت زیادہ کوششیں کی جا رہی ہے جس کے لیے یونیورسٹیوں سے نئے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کو جدید تکنیک اور طریقہ کار کے ذریعے کاشتکاری کے لیے زمینیں الاٹ کی جا رہی ہیں تاکہ ملک میں ایک زرعی انقلاب برپا کیا جا سکے۔ پراجیکٹس کے منافع کا ایک معقول حصہ مقامی لوگوں پر خرچ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جاسکے ان اقدامات میں نئے سکولوں کی تعمیر اور موجودہ زرائع مواصلات کی بہتری قابل ذکر ہیں۔ 
جی پی آئی نے ایگریکلچر مالز کے قیام پر بھی کام شروع کر دیا ہے، جو کسانوں کی ضروریات کے مطابق اوران کی آسانی کے لیے  جدید مشینری، معیاری بیج، فیکٹری ریٹ پر کھاد، کیڑے مار ادویات اور دیگر مواد ایک ہی چھت کے نیچے مہیاکرے گا۔ بغیر ٹیکس کے جدید زرعی مشینری کی درآمد کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ پیداوار بڑھانے اور موسم اور کیڑوں کے خلاف موثر ہائبرڈ بیج تیار کرنے کے لیے قومی بیج پالیسی بنائی گئی ہے۔ کسانوں کوبہتر  کاشتکاری کی رہنمائی فراہم کرنے کے لیے کنڈئی اور پیرووال میں ماڈل فارمز قائم کیے گئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن