27 نومبر کو میرپور میں پہلے سے طے شدہ پروگرام کیمطابق مسلم کانفرنس کا 76واں سالانہ اجلاس منعقد ہوا‘ جس میں آزادکشمیر بھر سے مہاجرین کشمیر سے اور بیرون ملک کشمیریوں کی طرف سے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں آزادکشمیر و مہاجرین کشمیر اور بیرون ملک کشمیریوں کی ذیلی تنظیموں کی طرف سے جماعت کے دستور کیمطابق جو سفارشات موصول ہوئی تھی انکی روشنی میں سردار عتیق احمد خان کو آئندہ تین سال کیلئے جماعت کا صدر منتخب کیا گیا۔ اس اجلاس میں آزادکشمیر اسمبلی کے 20 ممبران نے شرکت کی۔ اس اجلاس کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ مقبوضہ کشمیر کی مسلم کانفرنس کے صدر پروفیسر عبدالغنی بھٹ نے بھی خطاب کیا۔ یوں 1947ء کے بعد ریاست جموں کشمیر کے دونوں طرف کی نمائندگی کا اعزاز اس اجلاس کو حاصل ہوا۔ روایت کیمطابق منتخب صدر سردار عتیق احمد سے بزرگ راہنما مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ سردار عبدالقیوم نے حلف لیا۔ باپ کا بیٹے سے حلف لینا سیاست کے ذوق سلیم کی خوشگوار علامت نہیں تھی۔ بہتر ہوتا کہ پروفیسر عبدالغنی بھٹ سردار عتیق احمد سے حلف لیتے یا کوئی مسلم کانفرنس کا پرانا کارکن حلف لینے کا اعزاز حاصل کرتا۔ یہ اجلاس جماعت کے دستور کیمطابق اسکے سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادر سپیکر اسمبلی کے دعوت نامے پر منعقد ہوا تھا۔ درمیان میں دو بزرگ سپوتوں کے درمیان تحفظ اقتدار اور اقتدار چھیننے کے مسئلہ پر دوری پیدا ہوئی۔ مسلم کانفرنس کا ایک فارورڈ بلاک بنایا گیا جس کی سرگرمیوں کا محور مسلم کانفرنس کی صدارت کا حصول تھا۔ اس بلاک کی قیادت کا سہرا سردار سکندر حیات کے سر پر ہے اُن کا مسلسل مطالبہ یہ ہے کہ سردار عتیق احمد وزارت عظمٰی کا منصب ذمہ داری اور یکسوئی سے نبھائیں۔ جماعت کی صدارت چھوڑ دیں۔ اس نقطہ پر جو دوری پیدا ہوئی اس کو سردار عبدالقیوم خان نے بھی پاٹنے کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ شاید وہ شفقت پدری کے ہاتھوں سردار عتیق کو جماعت کی صدارت پر بھی فائز دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ مسلم کانفرنس دو حصوں میں بٹ گئی۔ اس کشاکش میں شاہ غلام قادر جیسے سنجیدہ اور مدبر رہنما کا کردار لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہے۔
مسلم کانفرنس کے نئے انتخابات میں جو غالباً 2004ء میں منعقد ہوئے۔ سردار عتیق احمد خان صدر منتخب ہوئے اور شاہ غلام قادر سیکرٹری جنرل منتخب ہو گئے۔ آزادکشمیر اسمبلی کے انتخابات 2006ء میں منعقد ہوئے۔ ان میں سردار سکندر حیات خان کی تائید سے سردار عتیق احمد خان وزیراعظم منتخب ہوئے اور شاہ غلام قادر کو سپیکر اسمبلی منتخب کیا گیا۔ وہ بتدریج اپنی معتدل مزاج اور کامیاب سیاسی روایات سے سپیکر کے عہدہ تک پہنچ گئے لیکن اُنکے دل میں اس سے بھی کسی بڑے عہدہ کیلئے خواہش چٹکیاں لیتی رہتی ہے۔ وہ مسلم کانفرنس کے دستور کیمطابق سالانہ اجلاس (جو 27 نومبر کو میرپور میں منعقد ہوا) کیلئے بطور سیکرٹری جنرل دعوت نامے بھی جاری کرتے ہیں اور مسلم کانفرنس کی تنظیم نو کیلئے فارورڈ بلاک کے ممبر کی حیثیت میں 26 نومبر کو سردار سکندر حیات خان کی صدارت میں منعقد ہونے والے ایک متوازی اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔
یہ لوگ کیا غضب ہیں کہ دل پر یہ اختیار
شب موم کر لیا سحر آہن بنا لیا
مسلم کانفرنس کی شاندار طویل تاریخ میں بڑے نشیب و فراز آئے‘ قید‘ گولیاں‘ لاٹھی چارج‘ نظربندی اس کی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ شیخ عبداللہ‘ چودھری غلام عباس سے لیکر سردار سکندر حیات خان اور اب سردار عتیق احمد تک اسکی قیادت نے عام طور پر اصولوں‘ خودداری‘ نظریات اور تحریک آزادی کے بنیادی مقاصد کی پاسداری کی اس طویل کشمکش کی زندگی میں کہیں سے اور کسی کی طرف سے جھول بھی آ گئے ہونگے جیسا کہ ان حالیہ چند سال میں نوجوان سردار عتیق احمد خان کے بیانات و طرز سیاست اور انداز حکمرانی میں دیکھے جاتے ہیں۔ مسلم کانفرنس کی قیادت میں قربانیاں بھی دیں اور اقتدار کے جھولے بھی جھولے لیکن بڑے نازک مواقع پر خاص طور پر 1975ئ‘ 1984ء کے دور میں بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا اور اس دور میں سردار عبدالقیوم اور سردار سکندر حیات خان نے بڑی استقامت اور جرأت کا مظاہرہ کیا۔ مسلم کانفرنس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ممبران میں سے بیرسٹر سلطان محمود کی پارٹی کے چار‘ پیپلز پارٹی کے آٹھ‘ ایم کیو ایم کے دو اور پیپلز پارٹی آزادکشمیر کے سردار خالد ابراہیم ایک ممبر ہیں۔ اگر مسلم کانفرنس کے فارورڈ بلاک کے دس ممبران اور اپوزیشن کے پندرہ ممبران مل جائیں تو سردار عتیق احمد خان کی حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہو سکتی ہے لیکن اگر اپوزیشن کے ممبران اس صورت میں مسلم کانفرنس کے فارورڈ بلاک کے کسی ممبر کو وزیراعظم بنانے پر آمادہ ہونگے! اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سردار عتیق احمد خان کی ذات کو ٹارگٹ بنایا جائیگا۔ سردار عبدالقیوم نے میرپور کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہدایت دی کہ سردار سکندر حیات کیخلاف کوئی بات نہ کی جائے۔ سردار عتیق احمد خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ سردار سکندر حیات انکے بزرگ ہیں جہاں چاہیں میں انکے پاس حاضر ہونے کو تیار ہوں۔ دونوں سرداران ریاست کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کے پاسدار رہے ہیں۔ چالیس سال تک دونوں ایک دوسرے کیساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر قدم سے قدم ملا کر آزمائش کے دور میں بھی سرخرو ہوتے رہے ہیں اور اقتدار کے مزے بھی لوٹتے رہے ایک چھوٹے سے مسئلہ پر اتنے گہرے تعلقات اور مقصد کے ساتھ وابستگی میں رخنہ پڑ جانا دونوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس تبصرہ سے قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسلم کانفرنس کے گوربا چوف کا اعزاز کسے حاصل ہوتا ہے اور راسپوٹین کا پھندنا کس کی ٹوپی میں سجتا ہے۔