لاہور (خصوصی نامہ نگار + کامرس رپورٹر + سٹاف رپورٹر + نوائے وقت نیوز) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں جمہوریت کے استحکام کےلئے پیش کی جانےوالی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ پیپلز پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شوکت بسرا نے تمام قواعد وضوابط معطل کر کے جمہوریت کے استحکام کےلئے قرارداد پیش کرنے کی اجازت طلب کی جس پر انہیں قرارداد ایوان میں پیش کرنے کی اجازت دیدی گئی۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں موجود تمام جماعتیں جمہوری نظام کے تحفظ کے لئے متفق ہیں ، ملک میں جمہوری نظام کی بالا دستی اور آئین کی حکمرانی کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائےگا اورکسی بھی قسم کے غیر جمہوری اقدام کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ قبل ازیں (ق) لیگ کے پارلیمانی لیڈر چودھری ظہیر الدین اور پیپلز پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شوکت بسرا نے قرارداد ایوان میں پیش کرنے کے حوالے سے وزیر قانون رانا ثناءاللہ خان سے مشاورت کی۔ وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے کہا کہ جمہوریت کے تحفظ کی قرارداد جمہوریت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہے۔ وزیراعظم کو اگر کسی فردِ واحد سے خطرہ ہے تو اسے سامنے لیکر آئیں۔ گزشتہ روز محکمہ مواصلات و تعمیرات سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران ارکان اسمبلی نے پنجاب سول سیکرٹریٹ کی تزئین و آرائش کیلئے 14 کروڑ 59 لاکھ 87 ہزار روپے اور چیف سیکرٹری بلاک کیلئے 7 کروڑ 35 لاکھ 80 ہزار روپے خرچ کئے جانے پر شدید تنقید کی۔ رکن اسمبلی احسان الحق نولاٹیا نے کہا کہ پانچ قسم کی بدعنوانی کی گئی جس میں سب سے بڑی بدعنوانی ٹینڈر کے بغیر کام شروع کیا جانا ہے جسے صوبائی وزیر ملک ندیم کامران نے غلط قرار دیا اور کہا کہ باقاعدہ ٹینڈر کے بعد کام کا آغاز کیا گیا۔ پرویز رفیق نے مطالبہ کیا کہ 25 دسمبر کو کرسمس کے موقع پر عمران کراچی میں ہونےوالا جلسہ اور جماعت اسلامی لاہور میں ہونےوالے اپنے دھرنے کو چند دن کےلئے منسوخ کر دےں۔ پرویز رفیق کے اس مطالبے کی دیگر حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی نے ڈیسک بجاکر تائید کی۔ بعد ازاں پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر سپیکر رانا محمد اقبال نے اپوزیشن رکن پرویز رفیق کی خواہش پر کرسمس کا کیک کاٹا جس میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے شرکت کی۔ اجلاس میں گنے کے کاشتکاروں کے مسائل اور کھاد کی عدم دستیابی پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے صوبائی وزیر زراعت احمد علی اولکھ نے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے زرعی مداخلت پر 16 فیصد جی ایس ٹی نافذ کردیا گیا ہے، جو کسانوں سے زیادتی ہے۔ اجلاس مقررہ وقت سے 50 منٹ تاخیر سے شروع ہوا، آغاز پر صرف 7 ارکان موجود تھے حکومتی رکن میاں رفیق اور سپیکر میں مکالمہ سے ایوان میں قہقہے بکھر گئے۔ میاں رفیق کھڑے ہوئے تو سپیکر نے کہا یااللہ خیر میاں رفیق نے کہا میں بلا تو نہیں ہوں سپیکر نے جواب دیا میں نے یہ تو نہیں کہا۔ حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے کسانوں کی پیداوار پر لگائے گئے 16 فیصد جی ایس ٹی کے خاتمے، ڈیزل، بجلی، زرعی ادویات پر حکومت سے سبسڈی دینے اور کھاد کی بوریوں پر قیمت پرنٹ کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ چودھری ظہیر الدین نے کہا کہ حکومت ڈیزل اور بجلی کے استعمال پر بھی سبسڈی دے۔ ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ روکنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے (ق) لیگ کے رکن محسن خان لغاری نے کہا میری تحریک انصاف میں شمولیت کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ علاوہ ازیں پنجاب اسمبلی کا اجلاس پیر 26 دسمبر تک ملتوی کر دیا گیا۔