لالہ جی کے لئے ”میڈان فیصل آباد“ نمائش

ایک طرف پورے ملک کی محب وطن قوتیں حکومت کی طرف سے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیئے جانے کے حوالے سے شدید تشویش میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے وفاقی حکومت نے 30دسمبر کو بھارت کوپسندیدہ ملک قرار دینے کےلئے نوٹیفکیشن کرنے کا فیصلہ کر کے بھارت کو تجارت کےلئے بحری اور فضائی راستوں سمیت واہگہ وارڈر کا راستہ کھول دینے کی دستاویزی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ گذشتہ ہفتے بھارتی ہائی کمشنر شرت سبھروال نے ایوان صنعت و تجارت فیصل آباد کے دورہ کے دوران پاکستان کے برآمدکنندگان کو بھارت میں تجارتی مواقعوں سے استفادہ کرنے کے جو مشورے دیئے تھے۔ ایوان صنعت و تجارت نے اس کے جواب میں بھارت کے مشرقی پنجاب کے شہر چندی گڑھ میں فیصل آباد میں تیار ہونے والی مصنوعات کی نمائش لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پاکستان کے تاجروں اور صنعت کاروں کی اکثریت خود کو محب وطن قرار دیتی ہے اور یہ بات درست بھی ہے کہ شہر کی یہ متمول اور ممتاز کمیونٹی اس ملک کے مقتدر سیاست دانوں کے مقابلے میں زیادہ محب وطن ہے۔ مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو بالعموم پیپلزپارٹی کے صف اول کے سیاست دانوں کے مقابلے میں زیادہ وطن دوست اور نظریہ پاکستان کا زیادہ پاسبان سمجھا جاتا ہے لیکن مقام حیرت ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت نے بھی حکمرانوں کی بھارت کو پسندیدہ قرار دیئے جانے کی پالیسی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ان کی طرف سے قومی حزب اختلاف ہونے کے باوجود اس معاملے میں خاموشی کاواضح مطلب یہی ہے کہ مسلم لیگ(ن) بھی اقتدار میں آ کر بھارت دوستی کے کلچر پر عمل پیرا رہے گی۔ انگریزوں سے آزادی کے وقت برصغیر کی تقسیم اس لئے عمل میں آئی تھی کہ مسلمان قوم ہندو اور سکھ قوم سے الگ اور اپنے عقیدے اور اقدار کے حوالے سے مختلف قوم تھی۔ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرتا تھا اور اس مملکت خداداد کی خاطر پوری قوم نے جو لازوال قربانیاں دیں اس کی نظری تاریخ میں نہیں ملتی۔ استاریخ کو ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے اور نہ ہی حکمرانوں کو کرنے دینا چاہیے۔ لیکن بھارتی ہندو لیڈروں نے کبھی بھی قیام پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا ہے۔ لہٰذا ”اکھنڈ بھارت“ کے داعی نہر خاندان کی وزیراعظم مسز اندراگاندھی نے 1971ءمیں مشرقی پاکستان پر حملہ کر کے اسے مغربی پاکستان سے الگ کرنے کے بعد نہایت فخر سے کہا تھا کہ اس نے قائداعظم کے دو قومی نظریہ کا لاشہ خلیج بنگال میں دفن کر دیا ہے۔ اندراگاندھی کے آنجہانی باپ نے نہایت چالاکی سے با¶نڈری کمیشن سے سازبار کر کے بھارتی پنجاب کے ضلع گورداسپور فیروز پور اور ہوشیارپور کو مسلم اکثریت کے اضلاع ہونے کے باوجود بھارتی پنجاب داخل کرنے کا ”مذموم کارنامہ“ سرانجام دیا تاکہ ریاست جموں و کشمیر تک زمینی راستہ نکل سکے اور ازاں بعد اس راستے سے بھارتی حکومت وادی میں داخل کر دی۔ اس وقت کی مسلمان جہادی تنظیموں نے اس کے خلاف مزاحمت کی اور پاکستان کی افواج نے بھی نیم دلانہ جہادی تنظیموںکاساتھ دیا اور اس طرح کشمیر کاایک بڑا علاقہ بھارت کے قبضہ سے آزاد کروا لیا گیا۔پاکستان کے پہلے وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی مداخلت پر اور اس کی طرف سے اس قرارداد کی منظوری کے بعد کہ کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ ان کے حق خودارادیت کے مطابق کیاجائے گا اور اگر ریاست جموں و کشمیر کے رہنے والوں نے بھارت کی بجائے پاکستان کے ساتھ رہنے کے حق میں فیصلہ دیا تو ان کی اس رائے کا احترام کرتے ہوئے بھارت وادی میں سے اپنی فوجیں نکال لے گا لیکن بھارت نے محض وقت لینے کےلئے اقوام متحدہ کی قرارداد کو قبول کیاتھا اور اب صورتحال یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر پر پوری طاقت سے پنجے گاڑھے ہوئے ہے اور چونکہ پاکستان کو سیراب کرنے والے دریا¶ں کے دہانے مقبوضہ کشمیر میں ہیں لہٰذا بھارت نے ان دریا¶ں کے اوپر ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان کی طرف بہہ کر آنے والے پانیوں کارخ موڑنا شروع کر رکھا ہے اور بھارت کے حکمران اس کوشش میں ہیں پاکستان کو دریائی پانیوں سے محروم کر کے بنجر بناد یا جائے۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کےلئے مشرقی پاکستان تک کو کھو دیا ہے اور پاکستان کو یہ زخم بھی بھارت نے لگایا ہے لیکن بھارت کی تمام تر دشمنی کے باوجود پاکستان کے حکمرانوں کو تجارت کےلئے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی بہت زیادہ جلدی ہے۔ یہ کام کم از کم پیپلزپارٹی کی حکومت کے ذریعے اس لئے نہیں ہوناچاہیے کہ اس پارٹی کی قیادت کی حب الوطنی پر ہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔ ایک طرف حکمرانوں کی طرف سے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی کوششوں کا سلسلہ شروع ہے اور دوسری طرف پاکستان کے تاجروں اور صنعت کاروں کو بھارت میں بہترین تجارتی مواقع سے استفادہ کرنے کادانہ ڈال دیا گیا ہے کہ ہمارے محب وطن تاجروں میں سرحد پار ”میڈان پاکستان مصنوعات“ کا میلہ لگانے کی امنگ جاگ اٹھی ہے۔ بھارتی ہائی کمشنر شرب سبھروال نے ایوان صنعت و تجارت فیصل آباد میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا بھر میں 60فیصد تجارت علاقائی ممالک کے مابین ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ دنیا کہ یہ ممالک پڑوسی ممالک کے اندر سیاسی عدم استحکام سے اس کو توڑنے کی سازش میں مبتلا نہیں ہوتے۔ پاکستان کے وزیرداخلہ رحمن ملک اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ بھارت بلوچستان کے موجودہ حالات کی خرابی بسیار میں یہودونصاریٰ کا شریک کار ہے اور اس کے باوجود ہم اور ہمارے حکمران اس قدر بے غیرت ہو چکے ہیں کہ بھارت کے ساتھ محبت کی پینگیں چڑھانے میں خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایوان صنعت و تجارت کی طرف سے چندی گڑھ میں ”میڈ ان فیصل آباد“ نمائش لگانے کی تازہ نوید سے پہلے بھی واہگہ بارڈر کے ذریعے بہت سی ”میڈ ان فیصل آباد“ سرحدپار برآمد ہو رہی ہیں خصوصاً شہر کے ایک انتہائی قابل احترام صنعت کار خاندان کی ”ستارہ کیمیکلز“ کے بھرے ہوئے ٹرک اکثر واہگہ بارڈر کے پار جاتے رہتے ہیں لیکن بھارت کے پسندیدہ ترین ملک قرار دے دیئے جانے کے بعد نئے سال میں فیصل آباد کے تاجر اور صنعت کار جس جوش و خروش سے سرحد پار تجارتی موج میلے کی توقعات لگائے بیٹھے ہیں اس سے قائداعظم کے دو قومی نظریہ اور اکابرین تحریک پاکستان کی روحیں تڑپ رہی ہوں گی۔ ویسے بھی یہ ہمارے مستقبل کےلئے زہر کا پیالا ہے۔ تحریک اتحاد ملت اسلامیہ کے مرکزی امیر محمد ریاض کھرل نے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے متوقع فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے بابائے قوم نے ہمیں آزاد اسلامی ملک دے کر ہم پر احسان کیا تھا لیکن ہم قائد کے اصولوں پر نہیں چلے اور ملک ٹوٹ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی بجائے قائداعظم کے یوم پیدائش پرملک کو ان کے اصولوں پر چلانے کا عہد کریں۔ جمعیت اتحاد العلماءکے صدر قاری محمد اصغر نے کہا کہ جب تک بھارت کشمیر پرسے اپنا غاصبانہ قبضہ ختم نہیں کرتا بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینا کشمیریوں سے غداری ہے۔ جمعیت اہلحدیث یوتھ فورس کے خالد محمود اعظم آبادی اور دوسرے لیڈروں نے کہا کہ حکمران بھارت کو پاکستان میں تجارتی راہداری دے کر بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ اور بھارت کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے تاجر و صنعت کار بھی سرحد پار ”صنعتی میلے“ لگا کر یہی کچھ نہیں کر رہے۔ بھارت سے ذاتی ”مفادات زر“ کے لئے ملکی معیشت کے مفلوج ہونے کو نظرانداز کرنا قابل شرم ہے۔ صنعت کار جو گیس، بجلی کے بحرانوں پر روتے ہیں بھارتی بنئے آ گئے تو وہ مکار رونے بھی نہیں دیں گے اور صرف رام رام کرتے رہیں گے۔ گھن آتی ہے، بھارتی نواز سوچ پر!

ای پیپر دی نیشن