منصف اعوان
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے سروے کا آغاز 1955ءمیں بین الاقوامی اداروں نے ورلڈ بنک کے تعاون سے کیا تھا اور دریا سندھ کے مکمل سروے کے بعد کالا باغ کے مقام پر ڈیم بنانے کی حتمی رپورٹ تیار کی گئی تھی۔ 1984ء میں جب اسے باقاعدہ تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس وقت کی صوبہ سرحد کی حکومت نے اس پر چند خدشات کا ذکر کیا ۔ مثلاً ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ‘ صوابی اور مردان کے علاقوں کو نقصان پہنچے گا اور وہ علاقے ڈوب جائیں گے۔ ان کی دیکھا دیکھی صوبہ سندھ نے بھی کچھ اعتراض کئے انہوں نے کہا کہ سندھ کا پانی روک لیا جائیگا۔ چنانچہ اس کے لئے مشترکہ مفادات کی کونسل نے 8 ممبران کی کمیٹی بنائی جس میں سے 7 ممبران نے ڈیم کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اس کو پاکستان کے لئے نہایت مفید قرار دیا لیکن عملی طور پر یہ کام آگے نہ بڑھا۔ اس کے بعد 1991ء میں چاروں صوبوں کے وزیراعلیٰ نے ملکر 16 ستمبر 1991ءمیں متفقہ طور پر ایک اکارڈ (معاہدہ) پر دستخط کر کے اس کی تعمیر کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا کہ آخرکار چاروں صوبے اس پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد چونکہ کوئی حکومت بھی مستحکم نہ رہی اور نہ ہی کسی حکومت نے اپنی میعاد پوری کی بلکہ سال دو سال کے بعد باری باری نوازشریف اور بے نظیر کی حکومتیں جاتی رہیںاور کالا باغ ڈیم پر کوئی حکومت عملی کام نہ کر سکی۔ البتہ بعد میں جنرل مشرف نے پرجوش اعلان کیا کہ کالا باغ ڈیم ہر صورت میں تعمیر ہوگا لیکن یہ اعلان بھی محض ایک اعلان ہی ثابت ہوا۔
صوبہ خیبر پی کے (سرحد) کے اعتراضات
صوبہ سرحد کا بیشتر علاقہ پانی کی جھیل کے لئے استعمال ہوگا جبکہ ڈیم کی کمائی صوبہ پنجاب کو ملے گی۔ افسوس کے عوام کو گمراہ کیا گیا ، حقیقت یہ ہے کہ جھیل کی کل زمین 27 ہزار 500 ایکڑز پر محیط ہوگی۔ اس میں سے 22 ہزار ایکڑ زمین پنجاب کی ہوگی اور صرف 5 ہزار 500 ایکڑ خیبر پی کے کی ہوگی ۔ اور حقیقت نہیں بتائی گئی۔ یہ بھی اعتراض کیا گیا کہ ڈیم کے پانی سے صوابی‘ نوشہرہ اور مردان کے علاقے ڈوب جائیں گے۔ در حقیقت ڈیم کی اونچائی 915 فٹ رکھی گئی ہے پانی کی سطح اگربلند ہو کر 916 فٹ ہو بھی جائے تو قریب ترین شہر نوشہرہ ایک ہزار (1000) فٹ کی بلندی پرواقع ہے۔
اس ڈیم کی تمام تر آمدنی پنجاب کو ملنے کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا۔ جبکہ اس کا حل بھی ممکن ہے کہ ڈیم جو صوبہ سرحد اور پنجاب کے سنگم پر بن رہا ہے اس کا سارا علاقہ جو تقریباً 10/15 کلو میٹر بنتا ہے اسے صوبہ خیبر پی کے میں شامل کر دیا جا تا۔ لیکن پاکستان کے خلاف سازش کرنے والوں نے کبھی اس تجویز کو ا ہمیت نہ دی ۔
صوبہ سندھ کا اعتراضات :
دریائے سندھ کا سارا پانی ڈیم میں روک لیا جائے گا اور سندھ کی زمینیں ویران اور برباد ہو جائیں گی۔ اس اعتراض کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ دریا کا پانی مسلسل تیز بہنے کی وجہ سے سمندر میں گر کر ضائع ہو رہا ہے اگر ڈیم بن جاتا ہے تو ایک ہفتہ کے اندر اندر ڈیم میں مطلوبہ پانی کی مقدار پوری ہو جائے گی۔ اس کے بعد پانی کی وہی مقدار بہے گی جتنی اب بہہ رہی ہے۔ البتہ ڈیم بننے کے بعد پانی ضائع ہو کر سمندر میں نہیں گرے گا بلکہ اسی پانی کی نہریں بنائی جائیں گی جو بہاولپور سے ہوتی ہوئی سندھ کے اندر بنائی جائیں گی۔ جس سے سندھ کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔اس کے برعکس لوکل سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے بعض رہنماﺅں کو بھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں ساتھ ملا لیا اور سارے کا سارا مسئلہ سیاسی بنا دیا گیا۔ بلوچستان جو کہ سب صو بوں سے بنجر اور ویران ہے اس کی ساڑھے تین لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوسکتی ہے۔کالا باغ ڈیم بننے سے سب سے زیادہ فائدہ صوبہ سندھ کو ہوگا‘ اس کی 8 لاکھ ایکڑ بنجر زمین آباد ہوگی اور سندھ میں زبردست ترقی ہوگی۔ کاش یہ چیزیں عوام تک پہنچائی جاتیں۔ اس طرح صوبہ پنجاب اور سرحد کی بھی بالترتیب 6 لاکھ ایکڑ اور 5 لاکھ ایکڑ زرعی زمین آباد ہوگی۔ جبکہ پورے ملک میں موجودہ پیداوار سے دوگنا پیداوار ہونا شروع ہو جائے گی۔
ہر سال سیلاب سے لاکھوں افراد اور لاکھوں ایکڑ زمین متاثر ہوتی ہے۔ ڈیم کے بننے سے پانی کنٹرول میں ہوگا اور سیلاب بالکل ختم ہو جائیں گے۔ بجلی کی پیداوار جس کا پورے پاکستان میں شدید بحران ہے اور ہم کرایہ کی بجلی استعمال کر رہے ہیں اس سے چھٹکارا مل جائے گا اور تقریباً 4000 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ پورے پاکستان سے لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی اور سب سے بڑا فائدہ جو عوام کو ہوگا اور جس کے اثرات ہر آدمی تک پہنچیں گے وہ یہ ہیں کہ بجلی جو اب 25 روپے فی یونٹ تک ہے انتہائی سستی ہوگی جو تین چار روپیہ فی یونٹ تک آ جائے گی ۔
کالا باغ ڈیم کے سوال کرنے پر ہر بڑی جماعت کا سیاسی لیڈر یہ فقرہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے اگر سب صوبے کالا باغ ڈیم بنانے پر متفق ہونگے تو ڈیم بنے گا ورنہ نہیں یہ فقرہ انتہائی معنی خیز ہے ۔ بڑی جماعتیں جو اقتدار میںر ہی ہیں یہ ان کی بنیادی ذمہ داری تھی کہ وہ کالا باغ ڈیم بننے پر اتفاق رائے کرتے اور سب کو اس بات پر آمادہ کرتے لیکن ان جماعتوں کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے اتفاق رائے کےلئے کبھی کوشش کی ہی نہیں گئی صرف زبانی جمع خرچ کیا گیا۔ اگر عملی اقدامات اٹھائے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ معاملہ طے نہ پا جائے۔ لہٰذا عوام سے اپیل ہے کہ وہ جھوٹے سیاستدانوں کے نعروں پر نہ جائیں بلکہ حقائق کا بچشم خود جائزہ لیں۔کالا باغ ڈیم بننے سے لاکھوں مزدوروں اور ہزاروں پڑھے لکھے افراد کو روزگار ملے گا اور ملک میں اللہ کی رحمت ہی رحمت ہو جائے گی۔کالا باغ ڈیم باقی سبق ڈیموں کی نسبت سب سے سستا اور قدرتی ڈیم ہے۔ اس کے اردگرد پہاڑ ہیں جو اس منصوبے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
کالا باغ ڈیم .... ایک قابل عمل منصوبہ
Dec 24, 2012