لاہور (خصوصی نامہ نگار / اپنے نمائندے سے/ سٹاف رپورٹر) تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومت کو آئندہ انتخابات آئین کے مطابق کرانے، انتخابی نظام میں تبدیلی کےلئے 10جنوری تک کی 3 ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو 11 جنوری کو نماز جمعہ کے بعد اسلام آباد کی جانب ملین مارچ شروع ہو جائے گا۔ 14جنوری کو اسلام آباد میں 40لاکھ لوگوں کی ”عوامی پارلیمنٹ“ کا اجلاس ہوگا ‘ شفاف الیکشن، آئین کے مطابق نظام رائج کرنے، نیک سیرت اور اہل لوگوں کو لانے میں بیشک 90روز سے زائد کا عرصہ بھی لگ جائے تو یہ غیر آئینی نہیں گا، آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ موجودہ نظام کے تحت انتخابات کرائے گئے تو یہ غیر آئینی ہونگے قوم ان انتخابات کو مسترد کردے گی‘ آئین کے تحت انتخابی عمل کو مکمل طور پر آئینی بنانے کیلئے جتنے وقت کی ضرورت ہے وہ لیا جائے غیر آئینی نظام کے تحت انتخابات ہوئے تو قوم ان انتخابات اور نتائج کو کسی بھی صورت قبول نہیں کریگی‘ نگران حکومت اور آئین کے مطابق انتخابی نظام کے لئے دو پارٹیوں کو ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مک مکا کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی عدلیہ اور فوج سمیت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موجود تمام سٹیک ہولڈرز کو بھی نگران حکومت میں شامل کیا جائے۔ دو جماعتیں آپس میں بیٹھ کر مک مکا کرنا چاہتی ہیں عوام فوجی مارشل لاﺅں کےخلاف لڑتے رہے ہیں اب سیاسی مارشل لاﺅں کے خلاف بھی لڑےں گے‘ پاکستانی غیور قوم ہیں انہیں اظہار رائے کی آزادی کے لئے مکمل تحفظ دیا جائے۔ یہ تحریک منہاج القرآن کا نہیں 18 کروڑ عوام کا اجتماع ہے۔ اگر میں امریکہ سے لیکر جاپان تک پھیلے اپنے پاکستانی بھائیوں اور کارکنوں کو کال دوں تو ہم تین سے چھ ماہ کے اندر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا قرضہ اتار سکتے ہیں‘ پارلیمنٹ میں موجود 70فیصد ارکان قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 62(F)کے تحت انتخابات لڑنے کے اہل نہیں‘ جو لوگ غلط فہمی کی بنیاد پر انتہا پسندی کی راہ پر چل پڑے ہیں وہ بھی اس دھرتی کے بیٹے ہیںاگر وہ ڈرون حملے ختم اور ملک کو غیر ملکی آقاﺅں کی غلامی سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو وہ میرا ساتھ دیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مینار پاکستان پر بہت بڑے اجتماع میں”سیاست نہیں، ریاست بچاﺅ“ ایجنڈے کا اعلان کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ‘ تحریک تحفظ پاکستان‘ اے پی ایم ایل، جے یو پی نیازی سمیت دیگر جماعتوں کے رہنماﺅں سمیت علما و مشائخ، تاجر، طلبہ اور تمام مکاتب فکر کے نمائندے بھی موجود تھے۔ طاہر القادری نے کہا قائداعظمؒ نے چند لٹیروں کے لئے پاکستان نہیں بنایا تھا ہم وڈیروں ‘جاگیرداروں‘ سرمایہ داروں اور غنڈوں سے ملک چھین کر غریبوں کو دیں گے ۔ ہم ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں انسان انسان کو نگل رہا ہے‘ ہمیں اس معاشرے کو تبدیل کرنا ہوگا ۔ عدل و انصاف کے اصولوں کے بغیر ریاست ترقی نہیںکر سکتی ۔ جدید دور میں عدلیہ کا مضبوط اور مستحکم ہونا نا گزیر ہے ۔ 18کروڑ عوام آئین کی حکمرانی اور عدلیہ کی بالادستی کے لئے کھڑے ہیں۔ انہوں نے انتہا پسندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم عدل و انصاف ‘ معاشرتی‘ قانونی‘ آئینی اور حقیقی اسلامی اقدارکی بات کرو گے تو میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔ اگر مساجد ‘ امام بارگاہوں ‘ غریبوں کے جان و مال کی حفاظت کی بات ہو گی تو تم میرا ساتھ دو گے ۔ میں سیاست پریقین رکھتا ہوں اور مدینے کی ریاست کا قیام سیاست محمدی کا آغا تھا ۔ میں صدیق اکبرؓ اور عمر فاروقؓ کے سیاسی اصولوںکو معاشرے میں قائم کرنا چاہتا ہوں۔ حکومت پانچ سال میں غربت ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایک طرف وہ خود سینکڑوں ایکڑ کے محلات میں رہتے ہیں اور دوسری طرف غریب کے پاس کھانے کو لقمہ ہے اور نہ سر چھپانے کو چھت، ہم ایسی سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم ایسی سیاست چاہتے ہیں جو قائداعظمؒ کے اصولوں کے مطابق اتحاد‘ تنظیم ‘ اخوت اور وحدت سے ملک کو ایک اکائی میں پرو دے۔ میرے ایجنڈے میں انتخابات ملتوی کرانا شامل نہیں مگر ہم اس نظام کے خلاف ہیں جس میں پارٹی امیدواروں سے پانچ کروڑ روپے لیکر ٹکٹ فروخت کئے جائیں ہم انتخابات میں آئین‘ دستور‘ گڈ گورننس کی بحالی‘ ہر سطح پر کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ غریب کو تحفظ ملے‘ پولیس رشوت نہ لے اور اسکے لئے ہمیں پولیس کی تنخواہوں میں چار گنا اضافہ بھی کرنا پڑے تو کریں گے۔ اس وقت ملک نہ صرف دہشتگردی کا شکار ہے بلکہ دہشتگردی کا ایکسپورٹر بھی بنا ہوا ہے۔ بالی بم دھماکوں میں ملوث شخص پاکستان سے گرفتار ہوتا ہے جبکہ پشاور ائیر بیس پر ہونےوالے حملوں میں مارے جانے والوں کے جسم پر ٹیٹو کندہ ہیں جو غیر ملکی ہاتھوں کے ملوث ہونے کا ثبوت ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی ہے کراچی کے فیصلے میںبھی وفاقی حکومت کو ناکام قرار دیا گیا ہے آئین کے مطابق انکے پاس حکومت کرنےکا کوئی جواز نہیں رہتا۔ کبھی ہم دنیا کی واحد اسلامی نیوکلیئر پاور تھے اب ہم ایک ناکام ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آر ہے ہیں۔ انہوں نے کہا جو لوگ پانچ سال میں غربت‘ مہنگائی‘ بیروزگاری کا خاتمہ نہیں کر سکے ہم انہیں ایکشن ری پلے کرنےکی اجازت نہیں دیں گے ۔ اب دھاندلی اور استحصال کا الیکشن نہیں ہوگا۔ پاکستان کرپشن میں 139ویں درجے پر ہے اسکی معاشی حالت 20درجے گر گئی ہے ۔ پاکستان کی بقاءخطرے میں ہے‘ سیاسی جماعتیں کہتی ہیں کہ فوج مداخلت کرتی ہے اگر ہم فوج کی مداخلت روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملک کو آئین کے مطابق چلانا ہوگا حکومت کی کارکردگی بہتر کرنا ہوگی۔ اس وقت ملک آئین کے مطابق نہیں چل رہا کیونکہ آئین کا آرٹیکل 3کہتا ہے کہ ریاست ہر قسم کا استحصال ختم کرے جبکہ معاشرے میں ہرطرف استحصال ہو رہا ہے اسی طرح آئین کا آرٹیکل 9کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کی جان و مال اور آزادی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا جبکہ کمزور امیدوار اور انکے حمایتی انتخابات میں ڈرتے ہوئے حصہ نہیں لیتے۔ الیکشن کمشنر کے پاس قانونی اختیار نہیں کہ وہ لوگوں کے جان و مال کی ضمانت دے سکے۔ آرٹیکل 37 کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوںکو معاشی انصاف فراہم کرے ۔ کیا ان تمام برائیوں کا سوفیصدی خاتمہ ہو چکا ہے۔ اگر نہیں تو انتخابات کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ آرٹیکل 38کہتا ہے لوگوںکی زندگیوں اور معاشی حالات کو بہتر بنایا جائے ہرشہری کوخوراک دی جائے لیکن یہ کسی کو بھی میسر نہیں۔ آرٹیکل 218کے مطابق انتخابات ایماندارانہ ‘منصفانہ ہوں اور اس میں کوئی ناجائز طریقہ استعمال نہ ہو ۔ غلط پریکٹسز ختم ہوں کرپشن کا خاتمہ ہو لیکن ان تمام شرائط میں سے ایک بھی شرط پوری نہیںکی گئی اگر اسکے باوجود انتخابات ہوتے ہیں تو یہ آئین کے خلاف ہوں گے۔ اصغرخان کیس میں صدر کو غیر جانبدار رہنے کے لئے کہا گیا ہے لیکن وہ غیرجانبدار نہیں تو کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں۔ نیب کے مطابق ملک میں دس سے بارہ ارب روپے کی روزانہ کرپشن ہوتی ہے اور پانچ ہزار ارب روپے کی سالانہ کرپشن ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کے ستر فیصد ارکان اسمبلی نے ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرائیں۔ 42ہزار سے زائد آمدنی پر ٹیکس دینا لازمی ہوتا ہے جبکہ انکم ٹیکس ایکٹ کے مطابق اگر کوئی اپنی آمدن چھپاتا ہے تو اسے دو سال سزا، جرمانہ یا بیک وقت دونوںچیزیں ہو سکتی ہیں۔ جب قانون بنانے والے خود قانون توڑیں اور ٹیکس جمع نہ کرائیں تو انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھیں کیا یہ کھلی دھاندلی نہیں۔ سپریم کورٹ نے91 ارکان اسمبلی کو جعلی ڈگریوں پر نااہل قرار دیا پارلیمنٹ نے بی اے کی شرط ختم کردی جس سے وہی لوگ دوبارہ الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ جعلی ڈگری لینے والوں اور ڈگری دینے والے مدرسوں کے لئے بھی یہ باعث شرم ہونا چاہیے۔ اگر انقلابی تبدیلی لائے بغیر انتخابات ہوئے تو یہی گھوڑے جیت کر پارلیمنٹ میں آ جائینگے اور یہ مذاق قیامت تک چلتا رہے گا ۔ آرٹیکل 62 کہتا ہے کہ رکن اسمبلی کو دانا ‘ نیک سیرت‘ اعتدال پسند‘ ایماندار اور امین ہونا چاہیے۔ لیکن چند لوگوںکے سوا باقی سب آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتے۔ آئین میں لکھا ہے کہ نوے روز میںانتخابات کرائے جائیں لیکن آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ نوے دن سے زائد عرصہ بھی لگ جائے تو یہ بھی غیر آئینی نہیں جسکی وجہ آئین کا آرٹیکل 254 ہے ۔ جس میںکہا گیا ہے کہ اگر کوئی کام یا چیز جس کا آئین تقاضا کرے کہ اسے اتنی مدت میں ہونا چاہیے اگر یہ کام مقررہ مدت میں ختم نہ ہو سکے تو آئین کے مطابق تب بھی یہ خلاف آئین نہیں ہوگا ۔ آئین کے مطابق شفاف انتخابات کرانا ضروری ہے۔ عدالت عالیہ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ آئین کے اس آرٹیکل کو پڑھے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تبدیل ہو رہا ہے ہمیں اپنی ریاست کو محفوظ بنانا ہے اس کےلئے تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ ہم انتخابی عمل میں اصلاح چاہتے ہیں اگر ملک میںآئین کی بالا دستی نہ ہوئی تو ملالہ کی طرح کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا۔ حکومت لوگوں جان و مال کی حفاظت اور معاشی استحکام دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔ میرے پاس ملک کو موجودہ آئینی اور معاشی بحرانوں سے نکالنے کےلئے قابل عمل ایجنڈا موجود ہے جسے نافذ العمل کر کے قلیل مدت میں نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اگر پانچ ہزار ارب کی کرپشن کو روک دیا جائے تو ہر غریب کو چھت میسرآسکتی ہے۔ میں مفت تعلیم‘ صحت‘ یکساں نصاب تعلیم‘ روزگار اور سستے انصا ف کو یقینی بنانا چاہتا ہوں ۔ میرے ایجنڈے کے مطابق عمل کر لیا جائے تو دیوانی مقدمات کا فیصلہ ایک ماہ میں فوجداری مقدمات کا فیصلہ پندرہ روز میں ہو جائےگا۔ ہم دہشتگردی اور ڈرون حملوںکا خاتمہ چاہتے ہیں اور تمام طبقات کو بشمول غیر مسلموںکو یکساں تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ ہم تمام بیرونی قرضوںکا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ انتخابی عمل میں ہرایک کے لئے مخصوص کوٹہ رکھیں گے جس میں ہر شعبہ زندگی کے لوگوںکو نمائندگی ملے گی ۔ صحافی‘ وکیل‘ کسان اور نوجوان منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں جائیںگے ۔ انتخابی حلقوں میںکسی بھی پارٹی کا کیمپ نہیں لگانے دیں گے ‘ انتخابات سرکاری عملہ فوج کی نگرانی میںکرائے گا ۔ انتخابات کے دنوں میں پولیس افسروں کو تین ماہ کے لئے دوسرے مقامات پرٹرانسفر کر دیا جائے گا۔ اگر اٹلی کی منتخب کرپٹ حکومت کو یورپ کی عدالت عظمیٰ برطرف کر کے اہل لوگوں کو لگا سکتی ہے جنہوں نے اٹلی کو ایک سال میں خسارے سے نکال دیا ۔ اگر یورپ اپنے احوال کو درست کرنے کے لئے اقدامات کر سکتا ہے تو ایسے اقدامات پاکستان میں کیوں نہیںہو سکتے۔ آئندہ انتخابات آئین کے مطابق نہ ہوئے اور آئین کی تمام شرائط پوری نہ ہوسکیں تو عوام غیر آئینی انتخابات قبول نہیںکریں گے۔ ہمارے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو لوگ 11 جنوری نماز جمعہ کے بعد گھروں سے نکل پڑیں اور اس کے لئے گھر ‘ زیورات اور تن پر پہنے کپڑے بھی بیچنے سے دریغ نہ کیا جائے۔ ہمارے جلسے کی طرح ہمارا مارچ بھی پرامن ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ وہ اللہ کوگواہ بناکرکہتے ہیں کہ اجتماع کے پیچھے دنیا کا کوئی ملک یا کوئی ایجنسی نہیں، اس اجتماع کے تمام اخراجات تحریک منہاج القرآن نے ادا کئے ہیں، چاہتا ہوں کہ غلط فہمیاں اور بدگمانی ختم کرکے لوگ میرا ایجنڈا سنیں، آج ہم پاکستان کو ایک نئے دور میں داخل کرنے جا رہے ہیں۔ ملک کو معاشی و اقتصادی مشکلات سے نکالنا میرا مقصد ہے، پاکستان سب کیلئے ہے، امیر، غریب، سیاہ، سفید کی تفریق نہیں، ہم یہاں پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں، ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ پاکستان میں عدل و انصاف کا راج ہو۔ مفت زمین دینا چاہتے ہیں‘ دہشت گردی اور ڈرون حملوں کے خلاف ہیں ان کو روکنا چاہتے ہیں جمہوریت کا فروغ اور یکساں تعلیمی نظام اور قوم کا تحفظ چاہتے ہیں‘ بیرونی قرضوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں‘ ہم بے غیرتی نہیں غیرت اور اہمیت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں‘ پارلیمنٹ کیلئے تاجروں‘ کسانوں اور اساتذہ سمیت تمام شعبوں کیلئے کوٹہ مختص کرنا چاہتے ہیں ہم سیاسی پارٹیوں کی جانب سے پانچ پانچ کروڑ لیکر انتخابی ٹکٹیں دینے پر پابندی لگانا چاہتے ہیں ملک میں شفاف انتخابات کیلئے فوج کی نگرانی میں انتخابات اور پولنگ سٹیشنوں پر سیاسی جماعتوں کے کارندوں اور امیدواروں کے داخلے پر پابندی لگانا چاہتے ہیں‘ تھانہ کلچر کا خاتمہ کیا جائے ملک کو مضبوط بنانے کیلئے قومی اداروں کو بچانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی عدالتوں کو بھی درست کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کو فوری اور سستا انصاف مہیا ہو سکے۔ میں الیکشن منسوخ نہیں کرانا چاہتا مجھے غرض صرف اس بات سے ہے کہ ملک میں آئین اور قانون کے تحت بننے والے نظام کے تحت ملک میں عام انتخابات کروائے جائیں۔ موجودہ حکمرانوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہیں کیا جب سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہیں ہوتا تو موجودہ نظام حکومت کس طرح آئینی ہو سکتا ہے‘ میں سمجھتا ہوں کہ آج کل سب کچھ غیر آئینی ہو رہا ہے میں پاک افواج اور عدلیہ سے سوال کرتا ہوں کہ ملک کو کس قانون کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ فوج شوق سے اقتدار میں نہیں آتی لیکن جب ملک کے تمام ادارے تباہ ہو رہے ہیں تو فوج کو روکا بھی نہیں جا سکتا۔ میں فوجی مارشل لاءکے خلاف ہوں اور ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے لیکن میں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی مک مکاﺅ کر کے ملک میں سیاسی مارشل لاءلگائے گا ہم اسے بھی تسلیم نہیں کریں گے‘ پاکستان کو صرف آئین کے مطابق ہی چلایا جا سکتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر ایماندار ہے مگر بے بس چیف الیکشن کمشنر کو بیٹھا دیا گیا ہے۔ فوج کی مداخلت روکنے کے لئے عدل و انصاف قائم کرنا ہو گا۔ فوج کی مداخلت روکنی ہے تو پارلیمنٹ کو م¶ثر بنانا ہو گا۔ خلفائے راشدہؓ کا نظام دیکھنا چاہتا ہوں