نئی دہلی (بی بی سی) بھارت کی معروف مصنفہ اور سماجی رہنما ارون دھتی رائے نے کہا ہے کہ ’میں نہیں مانتی کہ دہلی ریپ کا دارالحکومت ہے‘۔ ریپ تو برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ یہ ہماری ذہنیت میں سمایا ہوا ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا، کشمیر میں سکیورٹی دستے ریپ کرتے ہیں، منی پور میں بھی ایسا ہوتا ہے لیکن اس وقت تو کوئی آواز نہیں اٹھاتا ہے، بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے ایک اور واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’کھیر لانچی (ریاست مہاراشٹر کا ایک گاﺅں) میں دلت خاتون اور اس کی بیٹی کا ریپ کرکے انہیں جلا دیا گیا تھا۔ تب تو ایسی آواز نہیں اٹھی تھی۔ ریپ کے پیچھے کارفرما ذہنیت پر انہوں نے کہا لوگوں کی سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے جو اس وقت آواز اٹھاتی ہے جب اونچی ذات کے اہمیت رکھنے والے لوگوں کے ساتھ دہلی میں کچھ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ریپ کے معاملے پر ”آواز اٹھانی چاہئے، جو ہوا ہے اس کے لئے تو شور مچنا ہی چاہئے لیکن یہ ہنگامہ صرف مڈل کلاس لوگوںکو بچانے کے لئے نہیں ہونا چاہئے“۔ انہوں نے سماجی رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر آپ کو یاد ہو تو چھتیس گڑھ میں قبائلی خاتون سونی سوزی کے ساتھ بھی کچھ ہوا تھا۔ ان کے ساتھ پولیس نے ایسا کیا لیکن اس وقت تو کسی نے آواز نہیں اٹھائی تھی۔ اس پولیس افسر کو تو بہادری کا ایواڈ ملا۔ کشمیر کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’کشمیر میں جب سکیورٹی فورسز غریب کشمیریوں کا ریپ کرتے ہیں، اس وقت سکیورٹی فورسز کے خلاف کوئی پھانسی کا مطالبہ نہیں کرتا۔ دہلی میں جاری احتجاج پر انہوں نے کہا ’احتجاج ہونا چاہئے لیکن چُن چُن کر مخالفت نہیں ہونی چاہئے۔ ہر عورت کے ریپ کی مخالفت ہونا چاہئے۔ یہ دوہری ذہنیت ہے کہ آپ دہلی کے ریپ کے لئے آواز اٹھائیں لیکن منی پور کی عورتوں کے لئے، کشمیر کی عورتوں کے لئے اور کھیر لانجی کی دلتوں کے لئے آپ آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟‘۔