پشاور خودکش دھماکے کی خبر ابھی بریکنگ نیوز کی شکل میں ٹی وی چینلوں کے خبرناموں کے ذریعے سکرین پر نمودار نہیں ہوئی تھی کہ کراچی سے مجھے ایک باخبر سابق بیورو کریٹ کا فون موصول ہوا، ان کے لہجے میں تلخی کو بھانپ کر مجھے کسی انہونی کا دھڑکا لگا تو اس کے ساتھ ہی مافی الضمیر ان صاحب کی زبان پر آ گیا، ”بھئی فوج آخر کب تک ملک کو بچانے کی ذمہ داری سے گریز کی پالیسی اختیار کئے رکھے گی“ آج پشاور کے ایک سیاسی گھر میں خودکش حملے کو اس حملے کا نشانہ بننے والوں کی حکومت نہیں روک سکی تو کہیں اور بھی کوئی دوسری حکومت بھی اپنی رٹ کیسے منوا سکے گی؟“
میں نے تجسس بھرے لہجے میں ان صاحب سے پشاور کے واقعہ کی تفصیلات معلوم کیں تو میرا دل دھک سے رہ گیا۔ تیزی سے پھیلنے والی دہشت گردی کی اس نئی لہر کا جو ممکنہ پس منظر میرے ذہن میں کھلبلی پیدا کر رہا تھا، اسے پشاور خودکش حملے کے خلاف ٹی وی چینلوں کے ذریعے سامنے آنے والے حکومتی اور قومی سیاسی قائدین کے ردعمل نے گڑبڑا کر رکھ دیا۔ آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری رکھنے اور تیز کرنے کا تقاضا ”بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں سے کوئی مفاہمت، کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ ان کا علاج انہیں تہس نہس کرنے کے سوا اور کوئی نہیں“۔ مسلم لیگ (ن) کے ایاز امیر بھی یہی زبان بولتے اور یہی لب و لہجہ اختیار کئے نظر آئے۔ اور تو اور مائینڈ سیٹ کا طعنہ دے کر دہشت گردوں ہی نہیں، ان سے بات چیت کر کے افہام و تفہیم کا کوئی راستہ نکالنے کی بات کرنے والوں کو بھی تہس نہس کرنے کے عزائم کا اظہار ہونے لگا۔
ارے صاحب۔ دس سال میں آپ نے کیا کچھ نہیں کر دیکھا۔ اپنا آپریشن اور غیرو ں کے ڈرون حملے، پھر نتیجہ؟ یہ مائینڈ سیٹ ختم ہوا یا فروغ پا کر مزید پھیلا؟ پھر اس کا ذمہ دار اور قصوروار کون ہے۔ آپ امریکی نائن الیون سے پہلے والے ملک کے حالات کا جائزہ تو لیجئے۔ یہ مائنڈ سیٹ اس وقت بھی ہو گا مگر کیا کہیں بے دریغ ایسے خودکش حملے اور دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی تھیں؟ اگر ایسا نہیں تھا تو کیا یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہو گا کہ یہ سارے خودکش حملے اور دہشت گردی کی دوسری وارداتیں کسی نہ کسی ردعمل میں ہو رہی ہیں۔ حضور والا۔ یہ کس کا ردعمل ہے؟ قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن اور ڈرون حملوں کے سوا اور کس عمل کا یہ ردعمل ہو سکتا ہے؟ ہماری سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی مجبوری بھی افغانستان میں امریکی نیٹو فورسز کی مسلسل موجودگی کے باعث لاحق ہوئی اور ڈرون حملوں کی سہولت بھی امریکہ کو نیٹو فورسز کے ذریعے افغانستان پر قبضہ کرنے کے نتیجہ میں ملی۔ پھر خرابی کی اصل جڑ تو نیٹو فورسز کی اس خطہ میں موجودگی ہی ٹھہری جس نے مائینڈ سیٹ والوں کو کونوں کھدروں سے نکل کر سٹیٹ اتھارٹی کو چیلنج کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اور یہ سٹیٹ اتھارٹی چیلنج بھی اس لئے ہوئی کہ اس اتھارٹی کو ملک اور عوام کے بجائے امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ پھر جناب آپ آخری دہشت گرد کے مارے جانے کی تمنا میں کس حد تک جانا چاہتے ہیں۔ آپ سٹیٹ اتھارٹی تسلیم کرانے کے چکر میں اپنی کمزوریاں اجاگر کرتے ہیں اور اپنی ناکامیوں کی داستانیں رقم کرتے ہیں تو اس کے ناطے آپ پر ملک و قوم کی توقعات پر پورا نہ اترنے کا الزام عائد ہوتا ہے اور پھر اس سسٹم کی جگہ کسی ماورائے آئین اقتدار والا دور واپس لانے کی نکتہ آفرینیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مجھے فون کرنے والے کراچی کے باخبر صاحب بھی اسی استدلال کے تحت فوج کے براہ راست میدان میں آنے کا تقاضہ کر رہے تھے۔
خدا نہ کرے کہ ایسا ہو مگر میرے ذہنِ نارسا میں یہ سوال بھی کلبلاتا نظر آیا کہ کہیں دہشت گردی کی یہ نئی لہر فوج کا جواز نکالنے کے لئے تو پیدا نہیں کی گئی؟ ایسے سارے تجسس کیا مائینڈ سیٹ والوں کے ساتھ امن مذاکرات کے متقاضی نہیں؟ بھئی جس نے دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ اس خطہ میں شروع کر کے ہمیں اس کی آگ میں جھلسایا، وہ خود کو اس آگ کی تپش سے بچانے کے لئے فرانس میں، انہی دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی میز سجائے بیٹھا ہے اور ان کے ساتھ افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا ہی نہیں، گرفتار ہونے والے سارے دہشت گردوں کو رہا کرنے پر بھی آمادہ ہو گیا ہے اور ہم ہیں کہ آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے اپنی مکمل بربادی کا اہتمام کئے جا رہے ہیں۔
اگر ایسے حالات پیدا کر کے کسی کی تمنا دوبارہ ماورائے آئین اقتدار کی سیج سجانے کی ہے تو کیا اس اقتدار کا خواب اس ملک کو قبرستان میں تبدیل کر کے شرمندہ¿ تعبیر کیا جانا ہے؟
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کے ملک واپسی کے ایجنڈے کے حوالے سے بھی کسی ماورائے آئین اقتدار کی چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ انہوں نے گذشتہ روز مینار پاکستان کے سائے تلے اپنے سامنے وسیع و عریض میدان میں انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے روبرو نظام کی تبدیلی کا جو ایجنڈہ پیش کیا اس پر اگلے کالم میں کھل کر بات کی جائے گی تاہم انہوں نے اس یادگار انسانی اجتماع میں جس انداز میں اور جس منطق اور دلیل کے ساتھ مائینڈ سیٹ والوں کو مذاکرات کی دعوت دی۔ میرے خیال میں یہی دہشت گردی سے نجات کا واحد راستہ ہے۔ مذاکرات کی میز پر یقیناً ان تمام استفسارات پہ بات ہو سکتی ہے جو ڈاکٹر طاہرالقادری نے دو گھنٹے سے بھی زیادہ عرصے پر محیط اپنے خطاب میں اٹھائے۔ اگر وہ دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور مائینڈ سیٹ والوں کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ آپ ملک میں ڈرون حملے روکنا چاہتے ہیں، ملک کی سالمیت کے خلاف بیرونی جارحانہ عزائم کا توڑ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ناانصافیوں کا خاتمہ کر کے عام آدمی کے حقوق تسلیم کرنے والا منصفانہ نظام لانا چاہتے ہیں تو میں آپ کے ساتھ ہوں تو حضور والا، یہی تو انہیں مذاکرات کے ذریعے امن کی راہ پر لانے والا ایجنڈہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ساڑھے سات سو صفحات پہ محیط اپنا فتویٰ جاری کرنے والے شیخ الاسلام اگر آج انہی دہشت گردوں کا حقیقی ایشوز پر ساتھ دینے کا اعلان کر رہے ہیں اور ان ایشوز پر ان کا تعاون بھی طلب کر رہے ہیں تو مائیڈ سیٹ کا طعنہ دینے والوں کو بھی اب حقائق کا ادراک کر لینا چاہئے۔ منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے لٹھ لے کر پیچھے پڑنے سے زیادہ بہتر یہی ہے کہ ملک کو، عوام کو اور خود کو آنے والی کسی افراتفری سے بچانے کے لئے وہی راہ اختیار کر لیں جو اس خطے کو افراتفری کی جانب دھکیلنے کا ایجنڈہ لے کر آنے والا اب خود اپنے بچاﺅ کے لئے اختیار کر چکا ہے۔ کسی انہونی کے بجائے کسی ہونے سے ملک کی سلامتی اور عوام کے تحفظ کی خاطر امن و سلامتی کی ضمانت مل سکتی ہے تو آپ کیوں مائینڈ سیٹ کے کند ہتھیار سے عوام کو ذبح کرانے اور ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرانے کا سلسلہ برقرار رکھوانا چاہتے ہیں۔ پھر آپ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں حضور والا؟