لاہور(رفیعہ ناہید اکرام )سال 2013ء میں بھی بے سہارا خواتین کیلئے صوبائی دارالحکومت میںبند روڈ پر واقع’’ واحد‘‘ دارالامان میں رہائش پذیر خواتین کی مشکلات میںخاطرخواہ کمی واقع نہ ہوسکی اور سابق ڈی سی او نسیم صادق کے اعلان کے باوجود ٹھوکر نیازبیگ کے علاقہ میں31کمروں پر مشتمل عمارت کا حصول ممکن نہ ہوسکا۔ دوسری جانب موجودہ بلڈنگ میں ہی نیا بلاک بنانے کی درخواست پر بھی کوئی کارروائی عمل نہ آئی‘ تاہم سارا سال ضروریات کے مقابلے میں ناکافی عمارت کی ہی ’’ تزئین وآرائش ‘‘ کے نام پر جھاڑ پونچھ ہوتی رہی اور پناہ حاصل کرنے والی خواتین کو رہائش‘ خوراک اور صفائی کے حوالے سے مشکلات کاسامنارہا۔ وہ گھرسے نکل کر دارالامان کے کاریڈورز‘ ٹی وی روم‘ راہداریوں اور کچن میں رہنے اور روکھی سوکھی کھانے پرمجبور ہوتی رہیں۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ سوشل ویلفیئرکے زیرانتظام دارالامان میں سال2013ء کے دوران ملک کے مختلف اضلاع سے گھریلو تشدد، امتیازی سلوک، طلاق کے حصول، پسند کی شادی، سستے موبائل فون پیکیج اور زندہ درگور کردینے والی مہنگائی کے باعث یکم جنوری 2013ء سے 23 دسمبر2013ء تک 1271خواتین 375 بچوںکے ہمراہ پناہ کیلئے آنے پر مجبور ہوئیں۔ 50 افراد کی گنجائش رکھنے والے دارالامان میں رہائش پذیر افراد کی سب سے زیادہ تعداد ماہ ستمبر میںسب سے زیادہ 186رہی۔ ان میں 138خواتین اور 48 بچے شامل تھے جبکہ یہاں کم از کم تعداد ماہ دسمبر میں 73 رہی۔ سپرنٹنڈنٹ دارالامان مصباح رشید نے نوائے وقت سے گفتگو میں بتایا کہ ہم پناہ گزین خواتین کو سہولتوں کی فراہمی میں دن رات کوشاں ہیںمگر صوبے کے دیگر اضلاع میں دارالامانوں کی موجودگی کے باوجود خواتین لاہور کا ہی رخ کرتی ہیںاور ہم پناہ کیلئے آنے والی بے سہارا خواتین پر اپنے دروازے بند نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے انتظامی مشکلات ضرور پیش آتی ہیں۔ موجودہ دور میں سستے فون پیکیج اور پسند کی شادی کی وجہ سے لڑکیاں گھر چھوڑ رہی ہیں۔ اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے اہل خانہ کو چاہئے کہ خواتین، لڑکیوں اور بچیوں کو خصوصی توجہ دیں اور ان کے مسائل کو نظرانداز نہ کریں۔
لاہور کا واحد ’’دارالامان ‘‘ خواتین کے لئے ’’جائے امان‘‘ نہ بن سکا‘ سہولیات کا فقدان‘ مکین روکھی سوکھی کھانے پر مجبور
Dec 24, 2013