پاکستان کے زیرک سیاسی و پختہ فکر کے مذہبی رہنما مولانا فضل الرحمان کا یہ فتویٰ برمحل اور درست ہے کہ پاک بھارت سول مشترکہ نیوکلیئر پلانٹ کی تجویز بچگانہ ہے۔ یہ تجویز شاید عمران خان سے منسوب کی گئی تھی۔ بھارت نے ابھی تک پاکستان کے قیام کو دل سے قبول نہیں کیا ہے۔ وہ پاکستان کی شہ رگ پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کا تنازعہ لے کر خود گیا تھا۔ اس کے حل کے لئے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو تسلیم کیا تھا۔ سرینگر کے لال چوک میں اور اپنی پارلیمنٹ میں بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا ہم سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دیں گے خواہ ان کے نتائج سے ہمیں دکھ ہو گا لیکن بھارت نے ان قراردادوں پر عملدرآمد کرنے کے بجائے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنا لیا ہے اور تین جنگیں پاکستان پر تھوپیں۔ بھارت اور پاکستان میں رسمی ملاقاتیں 148 ہوئی ہیں۔ کسی ملاقات میں باقاعدہ مذاکرات کا ایجنڈا تیار نہیں ہو سکا صرف اس لئے کہ کشمیر کے کلیدی مسئلہ پر بھارت سنجیدہ گفتگو کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ واجپائی بس سروس کے ذریعہ لاہور آئے تھے۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ مذاکرات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس میں لکھا گیا تھا کہ دونوں ممالک کشمیر کے مسئلہ کو سلامتی کونسل کی قراردادوں پر اپنے اپنے م¶قف پر قائم رہتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یعنی نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی۔ اب تو بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ مذاکات کا وقت اور ایجنڈا تیار کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے کہ اس میں کشمیر کا ذکر آئے گا۔ اس بھارت کے ساتھ مشرکہ سول نیوکلیئر پلانٹ کا سوچنا بھی سیاسی بصیرت کے فقدان کا پتا دیتا ہے۔ مولانا فضل ا لرحمان اپنے والد بزرگوار کے دینی ا ور سیاسی پس منظر کے سہارے بھارت کی قیادت سے تعلقات برقرار رکھتے ہیں۔ وہ پہلے بھی نئی دہلی گئے تھے۔ وہاں پر جمعیت علمائے دیوبند اور کانگرس کی قیادت نے ان کے وفد کی اچھی پذیرائی کی تھی۔ اب کی بار وہ پھر نئی دہلی گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان پختہ فکر کے رہنما ہیں۔ وہ بھارت سے تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں لیکن وہ تو پاکستان کی پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ اس حیثیت میں کشمیر کے کلیدی مسئلہ پر پاکستان کے م¶قف اور کشمیریوں کے حق خود اختیاری کی حفاظت کرنا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ تو کشمیر کاز ہے۔ بھارت اسے گلے کا کانٹا سمجھتا ہے اور مذاکرات کیلئے ایجنڈا تیار نہیں کرتا۔ بھارت اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کرائے اسکے ساتھ مستقل دوستی ہو جائے گی۔ میاں نواز شریف اور عمران خان پاکستان سے دفاعی اور معاشی استحکام کے ضامن کشمیر کو حق خود اختیاری کی بنیاد پر حل کرائیں پھر دوستی بڑھاتے رہیں۔