کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟

کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟

ہم سب مسلمان ہیں اور اسی نام سے پکارے جاتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں قرآن حکیم اس سلسلے کی ایک موثر کڑی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ زکوٰة کی رقوم کو غربا پر کم خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ان گنت لوگ مانگ کر گزر اوقات کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہی زکوٰة کی رقم وصول کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ زکوٰة فنڈ سے ایسے لوگوں کی آبادکاری کا کام کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں غربت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارا سب سے اول کام یہ ہو گا کہ ہم سرزمین پاکستان سے جہالت اور غربت کو ختم کریں۔ ایسے کیا جانا عین ممکن ہے۔ ایک ہی شرط ہے کہ ہم سب کی نیت صاف اور پاک ہو۔
حکمران ایماندار ہو، وہ حکمران نہ ہوں بلکہ وہ عوام کے خدمت گزار ہوں۔ پاکستان کی کروڑوں ایکڑ فالتو اراضیات کو غربا میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہماری یہ کوشش ہو گی کہ ہر غریب گھرانے سے کم از کم ایک مستحق فرد کو کرنے کر کام مل سکے گا۔ پاکستان میں جگہ جگہ لاکھوں کارخانے لگا دو۔ اس سے لوگوں کو روزگار مل سکے گا۔ ایک اچھا اور سچا مسلمان وہی ہو سکتا ہے جو اپنے غریب ہمسایوں کی کفالت کا بندوبست کرے گا۔ ہم جہالت کی تاریک وادی گرے ہوئے ہیں۔ جہالت ہماری سب سے بڑی دشمن ہے۔ اس کا خاتمہ ہر صورت میں ضروری ہو گیا ہے۔ ہم اردگرد گہری نگاہ سے دیکھیں کہ دنیا کہاں پہنچ چکی ہے۔ ہم ابھی تک اپنے بنیادی ”مسائل روٹی کپڑا مکان“ کو حل نہیںکر سکے۔
ابھی تک ہم ”سائنس اور ٹیکنالوجی“ کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت اہل مغرب ترقی کرتے کرتے بہت دور نکل گئے ہیں۔ انہوں نے تو سائنس کی بدولت چاند کو فتح کر لیا ہے۔ وہ ابھی اور آگے کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔ جو کچھ بھی وہ کہتے ہیں وہ کر کے بھی دکھاتے ہیں۔ کیا ہم سب کا کام صرف اور صرف ایک دوسرے کا قتل عام کرنا ہی رہ گیا ہے؟ قرآن کا فرمان ہے کہ جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا ہے اس نے گویا سارے جہان کا قتل کیا ہے۔ کیا ہم اس خدائی حکم کو مانتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں؟ میرے خیال میں ایسے ہر گز نہیں ہو رہا ۔ وہ کون لوگ ہیں جو اپنے مسلمان اور بے گناہ بھائیوں کا خون بہاتے ہیں؟ وہ تو ہم خود ہیں۔ دشمن ہمارے گھروں میں داخل ہو گیا ہے۔ وہ اپنے ساتھ بے حساب دولت اور ہر قسم کے مہلک ہتھیار بھی لے آیا ہے۔ ہم اس دشمن کی پہچان کریں اور اس کو پہلی فرصت میں ختم کر دیں۔ دنیا کی اس وقت آبادی تقریباً 7بلین ہو چکی ہے۔ دنیا میں لگ بھگ 200 کے قریب ملک ہیں۔ کیا کسی اور ملک میں بھی ہمارے جیسا قتل عام ہو رہا ہے؟ جواب نفی میں آتا ہے۔ قائداعظم کی قیادت میں کلمہ گو لوگوں نے پاکستان بنایا تھا۔ صد افسوس کہ وہی کلمہ گو اس پیارے پاکستان کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایسا مت کرو۔ اگر ایسا ہم نے کیا تو ہم اور ہماری آنے والی نسلیں غلام ہوں گی۔ آپس کی بے مقصد جنگ نے سپین میں مسلمانوں کی ایک عظیم الشان سلطنت کو ختم کر دیا تھا۔ ایک ایک کر کے وہاں سے مسلمانوں کا خاتمہ کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو تباہ کر کے گرجوں میں بدل دیا گیا تھا۔ کیا ہم نے کوئی تاریخ سے سبق سیکھا ہے؟ ابھی تک تو ایسے نہیں ہو سکا۔ اسی خانہ جنگی اور بے اتفاقی کی بدولت ہم قائداعظم محمد علی جناح کا بنایا ہوا پاکستان ختم کر چکے ہیں۔ باقی ماندہ پاکستان میں بھی ہم وہی کام لگاتار کرتے جا رہے ہیں جس سے ہمارا پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔ پاکستان کے بلوچ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ ہمیں ان کو آئین پاکستان کے تحت سب کچھ دینا پڑے گا جس کا وہ حق رکھتے ہیں۔ ہم کون ہوتے ہیں کہ ان کا حق چھین لیں؟ بلوچستان پاکستان کی سب سے بڑی اکائی ہے۔ اسکے قد بت کیمطابق اسے حق حکمرانی دینا پڑیگا۔ آئندہ وہاں کا خالص بلوچی پاکستانی وزیراعظم بنائیں جو وہاں کے مسائل کولوگوں کی مرضی کے مطابق حل کرے۔ کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ 65 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی پاکستان جہالت جیسے کوڑھ کے مرض کا مریض ہے۔ اس مرض کا ذمہ دار کون ہے؟ میرے نزدیک پرانے اور نئے حکمران سب اس مرض کو لانے والے ہیں۔ امیر امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ غریب کو دو وقت کا کھانا بھی پیٹ بھرنے کےلئے نہ ملتا ہے۔ یہ غریب اور محروم طبقات تھے جنہوں نے پاکستان بنایا تھا۔
ہم سب کی بیداری کا وقت آ گیا ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور اس کے تقدس کے لئے سب کو ایک زبان ہو کر دن رات کام کرنا ہو گا۔ جگہ جگہ لگی ہوئی آگ اور شدت پسندی کو کون قابو کرے گا۔ یہ ملک اور پاکستان طبقات کی جائیداد ہے۔ یہ جائیداد جلد از جلد ان کو واپس کر دی جائے تاکہ وہ اس کو سنبھال سکیں اور اس کی دیکھ بھال کر سکیں۔ آج پاکستان میں انصاف ناپید ہو چکا ہے۔ جب سب کو انصاف ملے گا تو پھر ہی یہ انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہو گا۔
کشمیر ہر لحاظ سے روز اول سے ہی پاکستان کا حصہ ہے۔ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تو بھارت اور پاکستان کے درمیان خوفناک جنگ کے خدشات موجود رہیں گے۔ اب تو بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقت بن چکے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی آزادی کو ختم نہیں کر سکتے۔ البتہ دونوں بلاشبہ ایک دوسرے کو ایٹمی ہتھیاروں کی بدولت نیست و نابود کر سکتے ہیں۔ دونوں عقل کے ناخن لیں۔ مسئلہ کشمیر کو جلد از جلد انصاف کے اصولوں کے تحت حل کیا جانا ضروری ہو گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن