حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ سے عشق و محبت کے پیکر اور شریعت و طریقت کا حسین امتزاج تھے۔ آپ نجیب الطرفین سید تھے۔ والد ماجد کی طرف سے آپ کا سلسلۂ نسب پچیس واسطوں سے حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی محبوب سبحانیؒ کے ساتھ اور والدۂ ماجدہ کی طرف سے چھتیس واسطوں سے حضرت سیدنا امام حسنؓ کے ساتھ جا ملتا ہے۔ آپ نے جس خانقاہی ماحول میں پرورش پائی‘ وہ قال اللہ تعالیٰ اور قال رسول اللہﷺ کی صدائوں سے مہک رہا تھا۔آپ جب بچپن کے زمانے کو یاد کیا کرتے تو فرماتے کہ ابتدائے عمر سے ہی مجھے آبادی سے وحشت اور ویرانے سے راحت کا احساس ہوتا تھا۔ چھوٹا ہونے کے باعث میرا ہاتھ دروازے کی کنڈی تک نہ پہنچ پاتا تھا‘ لہٰذا سرشام ایک لکڑی کا بنا ہاون(چٹو) دروازے کے قریب رکھ دیتا اور اندھیرا بڑھنے پر اس پر چڑھ کر کنڈی کھول لیتا اور باقیماندہ رات کبھی جنگل اور کبھی پانی کے کسی نالے میں گزارا کرتا۔ جب آپ کو قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کے لئے مدرسے میں داخل کرایا گیا تو روزانہ کا سبق زبانی یاد کرلیتے۔ یوں ناظرہ قرآن مجید ختم ہوا تو سارا کلام پاک بلا ارادہ حفظ بھی ہو چکا تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ میں نے سات برس کی عمر میں ایک خواب دیکھا جس میں شیطان نے مجھے کشتی لڑنے کو کہا۔ کشتی کے دوران جب میں شیطان کو پچھاڑ دینے کے قریب ہوتا تو اچانک پانسہ پلٹتا اور وہ مجھ پر غالب آکر گرا لینے کے قریب ہوجاتا۔ اس وقت میں اللہ کی نصرت سے ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ کا ورد شروع کردیتا تو وہ مغلوب ہوجاتا۔ تین چار مرتبہ ایسا ہوا اور بالآخر میں خدائے بزرگ و برتر کی مدد سے شیطان کو پچھاڑنے میں کامیاب ہوگیا۔بچپن سے ہی آپ کے مجاہدات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔آپ کی خوراک نہ ہونے کے برابر تھی۔ جب بھی کھانا کھاتے‘ بس ایک دو لقموں پر اکتفا کرتے۔ کئی کئی دن تک کچھ بھی تناول نہ فرماتے کیونکہ نور حق تعالیٰ اور نور محمدﷺ ہی آپ کے لئے کافی و شافی تھا۔ آپ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نبی کریم حضرت محمدﷺکی ذاتِ عالیشان پر درود شریف بھیجنے میں منہمک رہتے۔ اس کم خوراکی کے باوجود 71برس تک آپ کی صحت اور جسمانی طاقت قابل رشک رہی تاہم بعدازاں معدہ اتنا کمزور ہوگیا کہ کام چھوڑ گیا۔ ہچکی شروع ہوتی تو بعض اوقات اس کا دورانیہ کئی ہفتوں پر محیط ہوتا۔ علالت کے ایام میں فرمایا کرتے تھے کہ گزشتہ 36سال سے میں نے غذا تقریباً ترک کر رکھی ہے اور میری مجموعی خوراک دو یا تین چھٹانک فی ہفتہ سے زیادہ نہیں رہی۔
عام مسلمانوں کے علاوہ علمائے کرام کی ایک خاصی بڑی تعداد نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ عقیدت مندوںاور طالبانِ حق کی ضروریات کے پیش نظر آپ نے گولڑہ شریف میں مسجد‘ مدرسہ‘ مہمان خانہ اور لنگر خانہ تعمیر کرائے۔ اس مدرسے سے بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں علمائے کرام فارغ التحصیل ہوئے اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوکر علم و عرفان کی ترویج کی خدمت انجام دینے لگے۔ اس طرح ملک بھر میں مدارس کا ایک ایسا سلسلہ معرضِ وجود میں آگیا جہاں سے آپ کی زیرنگرانی اسلامی عقائد اور تعلیمات کو افراط و تفریط سے محفوظ رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی گئی۔
حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ نے عقیدۂ ختم نبوتﷺ کے تحفظ کے ضمن میں جو خدمات انجام دیں‘ وہ ملت اسلامیہ کی تاریخ کا ایک انتہائی روشن باب ہیں۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بے جانہ ہوگا کہ 1869ء کے اوائل میں برطانوی حکومت نے پارلیمنٹ کے ارکان‘ اخبارات کے مدیران اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد ہندوستان روانہ کیا جس کا مقصد اس بات کا پتہ چلانا تھا کہ ہندوستانی عوام میں وفاداری کیسے پیدا کی جاسکتی ہے نیز مسلمانوں کے جذبۂ جہاد کو سلب کرکے انہیں کس طرح رام کیا جاسکتا ہے۔ اس وفد نے برطانیہ واپس جاکر دو رپورٹیں مرتب کیں۔ ایک رپورٹ کا عنوان "The Arrival of British Empire in India" تھا جس میں یہ لکھا گیا کہ ’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنمائوں کی اندھا دُھند پیروکار ہے۔ اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو حواری نبی(اپاسٹالک پرافٹ) ہونے کا دعویٰ کرے تو اُس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی مفادات کے لئے مفید کام لیا جاسکتا ہے۔‘‘ اس رپورٹ کی روشنی میں انگریز حکومت کی پشتیبانی سے مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور جہاد کے فرض کو سرے سے منسوخ قراردے ڈالا۔ برصغیر کے جن مشائخ عظام اور علمائے کرام نے اس فتنے کی سرکوبی کے لئے عَلمِ حق بلند کیا‘ ان میں حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ کا نام سرفہرست ہے۔ آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعے اس کذّاب کے دعوئوں کی تردید فرمائی۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اگست 1900ء میں آپ کو دعوت مناظرہ دی۔ آپ لاہور تشریف لے گئے مگر مرزا اپنی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود آپ کے مدمقابل نہ آیا۔ درحقیقت حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ کو ردِّقادیانیت کی اس جدوجہد میں حضور پاکﷺ کی روحانی مدد حاصل تھی۔ اس عظیم المرتبت ولیٔ کامل کے مریدین اور عقیدت مندوں نے تحریک قیام پاکستان میں قائداعظمؒ کا بے لوث ساتھ دیا۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے اس مرد کامل کی حیات و خدمات کو یاد کرنے کے لئے ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں ایک خصوصی نشست کا انعقاد کیا جس میں تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن‘ ممتاز صحافی اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ نشست کے مہمان خاص درگاہ عالیہ گولڑہ شریف کے سجادہ نشین پیر سید غلام معین الحق گیلانی تھے۔ اس نشست میںپہنچنے کی خاطر محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے دو مرتبہ قصد کیا مگر برادر اسلامی ملک ترکی کے وزیراعظم جناب رجب طیب اردگان کی آمد کی وجہ سے شاہراہِ قائداعظمؒ کو عوام الناس کے لئے بند کردیا گیا تھا۔ بہرحال تیسری کوشش میں پنجاب پولیس کی معیت میں وہ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان پہنچ گئے۔ اپنے خطاب میں اس امر کا ذکر بڑے شگفتہ پیرائے میں کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ دراصل پیر صاحب نے ہی مجھے یہاں بلایا ہے۔ میرے دفتر والے تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ پولیس مجھے گرفتار کر کے لے گئی ہے اگرچہ گرفتار تو مجھے پیر صاحب نے کیا ہے۔ میرے لئے یہ بڑی عظمت کی بات ہوگی اگر میں ہمیشہ پیر صاحب کے زیرحراست رہوں۔قیامِ پاکستان میں پیرانِ کرام نے سرگرم کردار ادا کیا ہے اور حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ اِن میں سرفہرست ہیں۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو پیر سید مہر علی شاہؒ، قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کا پاکستان بنا دے۔نشست کے اختتام پر پیر سید غلام معین الحق گیلانی نے ملک و قوم کی ترقی و استحکام کیلئے دعا کروائی۔
حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ…مہر منیر
Dec 24, 2013