مکرمی! ملک پاک میں کون کونسی کثافت (POLUTION) نہیں ہے مگر جس نے لوگوں کی زندگی کو ’’اجیرن‘‘ اور بے سکون کر کے ان کو فشارِ خون Blood Pressure) اور عدم برداشت و عدم تحمل کا شکار کر دیا ہے وہ شور کا عذاب ہے جو دن بدن بٖڑھتا ہی جا رہا ہے۔ پہلے صرف رکشا وغیرہ کا شور ہوا کرتا تھا لیکن اب بغیر سلنسر کے موٹر سائیکل رکشائوں یعنی چنگ چی (چاند گاڑیوں) نے وہ اُودھم مچا رکھا ہے کہ خُدا پناہ ۔ اس سے مُستزاد یہ کی ان نئی قسم کے رکشا والوں نے اونچی آواز میں ٹیپیں لگا کر گانے وغیرہ بھی سُنتے ہیں۔ سٹرکیں تو ان کی راجدھانی ہیں ہی گلی محلوں میں گھس کر اپنے وجود نامسعود کا اظہار کُھل کرکرتے ہیں۔ اب تو پھل، سبزی بیچنے والوں نے بھی اپنی ریڑھیوں پر لائوڈ سپیکر لگوا کر ’’بلائے بے درماں‘‘ مفت میں تقسم کرنا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ کباڑ، ردی وغیرہ خریدنے والوں نے بھی لائوڈ سپیکر سجارکھے ہیں اونچی آواز میں گانوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اپنی صنعت کا اظہار و تعارف کرتے ہوئے اپنے فرامین بھی درمیان میں جاری فرماتے ہیں۔ مختلف گھریلو اشیاء کو ٹھیک اور مرمت کرنے والے فنکار بھی اپنے سائیکلوں پر میگا فون باندھے اپنے فن کا اظہار کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ خود کو دین کا ٹھیکیدار سمجھنے والے مُلا بھی اپنا حصہ ڈالنا فرض عین گردانتے ہیں وہ بھی وقت بے وقت ثواب دارین لوٹنے کے مزے لیتے ہیں۔ بیچاری عوام جائے تو کہاں جائے؟ کیا صاحبان اقتدار و اختیار اس جانب بھی اپنی نظر التفات اٹھائیں گے اور عوام کو ان رکشائوں‘ ٹیپوں اور سپیکروں کے شور کے عذاب سے نجات دلائیں گے؟(میاں محمد رمضان ٹائون شپ لاہور)