اسلام آباد (وقائع نگار+ بی بی سی اردو) اسلام آباد ہائیکورٹ نے مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے یہ حکم سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور سابق وزیرِ قانون زاہد حامد کی جانب سے دائر درخواستوں پر دیا۔ ان تینوں کو خصوصی عدالت نے 21 نومبر کو غداری کے مقدمے میں شریک ملزم بنانے کا حکم دیا تھا۔ تینوں درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ کسی فرد کو شریکِ جرم بنانے کا اختیار عدالت کے پاس نہیں بلکہ صرف وفاق کے پاس ہے اور خصوصی عدالت نے اس سلسلے میں اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ خصوصی عدالت کو چاہئے تھا کہ وہ کسی تفتیشی ادارے کو یہ ذمہ داری سونپتی کہ ان تینوں پر عائد الزامات کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کس طرح ایک خصوصی عدالت یا بنچ کو کام کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ درخواست گزاروں کے وکلا نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سپریم جوڈیشل کونسل کو سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف زیرِسماعت صدارتی ریفرنس کی سماعت سے ایک عدالتی حکم نامے کے ذریعے روکا گیا تھا اور پھر ایک فل کورٹ بنچ نے اس ریفرنس کی سماعت کی تھی۔ درخواست گزاروں کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ جب تک ان کی درخواستوں پر فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک خصوصی عدالت کی کارروائی روک دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکیں گے۔ عدالت نے مشرف کے وکیل فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ انہیں خصوصی عدالت کی کارروائی روکنے پر کوئی اعتراض تو نہیں اور ان کی جانب سے اعتراض نہ کیے جانے پر جسٹس اطہر من اللہ نے خصوصی عدالت کو کام کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت کے لئے تین فروری 2015ء کی تاریخ مقرر کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔ تاہم اس وقت تک سنگین غداری کا مقدمہ سننے والی خصوصی عدالت کی کارروائی معطل رہے گی۔وقائع نگار کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت دو قانونی سوالات کا جائزہ لے گی، ایک یہ کہ کیا یہ درخواستیں قابل سماعت ہیں اور دوسرا اگر درخواستیں قابل سماعت ہیں تو کیا خصوصی عدالت کو شریک ملزموں کے حوالے سے حکم نامہ جاری کرنے کا اختیار حاصل تھا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت سے استدعا کی کہ ہمارے سر پر جو تلوار لٹک رہی ہے اس کو روکا جائے۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل ملک سے استفسار کیا کہ اس حوالے سے وفاق کا کیا موقف ہے تو انہوں نے کہاکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل افنان کریم کنڈی نے گزشتہ سماعت پر لارجر بنچ کی تجویز پیش کی تھی تاہم عدالت جو مناسب سمجھے حکم جاری کر دے۔ دی نیشن کے مطابق وفاق نے فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔