اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) پارلیمنٹ کی ایکشن پلان کمیٹی کے اجلاس میں فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق نہ ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق مدارس اصلاحات کی سفارش پر بھی اختلاف برقرار ہے۔ فوجی عدالتوں کا قیام اور مدارس کی اصلاحات کا فیصلہ قومی قیادت کریگی، فوجی عدالتوں کے قیام کی پیپلز پارٹی اور اے این پی نے بھی کھل کر حمایت نہیں کی جبکہ جماعت اسلامی نے اسکی مخالفت کی۔ ایکشن پلان کمیٹی نے اپنا کام 6 دن میں مکمل کر لیا۔ پارلیمانی نمائندوں کا موقف تھا کہ پارٹی قیادت ہی آل پارٹیز کانفرنس میں فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق فیصلہ کریگی۔ چودھری نثار نے اجلاس کے بعد بتایا کہ اجلاس میں بیشتر نکات پر اتفاق ہو گیا ہے، ایکشن پلان کمیٹی کی سفارشات آج اے پی سی میں پیش کی جائیں گی۔ کچھ نکات پر معمولی اختلاف ہے۔ پی پی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ کمیٹی کے سامنے اپنا موقف کھل کر بیان کیا آج اے پی سی میں لیڈرشپ شریک ہو گی جس میں ہماری تجاویز پیش کی جائیں گی، تمام معاملات اتفاق رائے سے طے پائیں گے۔ پارلیمانی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔ ہماری تجاویز پر آج میٹنگ میں بحث ہو گی۔ قبل ازیں انسداد دہشت گردی کی پلان آف ایکشن کمیٹی نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کےلئے فاٹا میں فوجی عدالتوں کے قیام تمام مدارس کی رجسٹریشن، نصاب میں تبدیلی اور غیر رجسٹرڈ مدارس کیخلاف کارروائی، انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی ریڈ بک کے اجراء، افغان مہاجرین کی واپسی، فاٹا میں انتظامی و قانونی اصلاحات کے بعد آئی ڈی پیز کی واپسی ، کریمینل جسٹس نظام میں بہتری ، انسداد دہشت گردی کونسل قائم کرنے اور کوئیک رسپانس فورس کی تعیناتی ، نفرت آمیز تقاریر اور لٹریچر کو انسداد دہشت گردی ایکٹ میں شامل کرنا، دہشت گردی کے مواصلاتی نظام کے خاتمہ ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں دہشت گردوں کی تشہیر پر مکمل پابندی عائد کرنے سمیت دیگراہم تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے حتمی منظوری کےلئے وزیراعظم کو بھجوا دیں ، ورکنگ گروپ کی تجاویز کی حتمی منظوری ( آج) منگل کو وزیراعظم کی سربراہی میں منعقد ہونیوالی پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس دی جائےگی۔ ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ نکی زیر صدارت انسداد دہشت گردی کی پلان آف ایکشن کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہوا، تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے ارکان ڈاکٹر شیریں مزاری ، عارف علوی ، فرید پراچہ ، مشاہد حسین سید ، سردار کمال شاہ ، سینیٹر کلثوم پروین ، قمر زمان کائرہ ، صاحبزادہ طارق اللہ ، سینیٹر صالح شاہ ، افراسیاب خٹک ، اکرم درانی ، بابر غوری ، سینیٹر رحمن ملک سمیت وزیراعظم کے ایڈیشنل سیکرٹری فواد حسن فواد ، سیکرٹری داخلہ ، کوآرڈینیٹر نیکٹا حامد خان ، ورکنگ گروپ کے ارکان خواجہ ظہیر ، بیرسٹر ظفر اللہ ، وفاقی وزیر برائے سیفران عبدالقادر بلوچ سمیت دیگر ارکان نے شرکت کی ۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم آفس کے ایڈیشنل سیکرٹری فواد حسن فواد نے ورکنگ گروپ کی جانب سے تشکیل دی گئی 17 تجاویز پیش کیں جن میں آپریشن ضربِ عضب ، آپریشن خیبر ون سمیت کشیدہ علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کےلئے فوجی عدالتوں کے قیام ، تمام مدارس کی رجسٹریشن ، نصاب میں تبدیلی اور غیر رجسٹرڈ مدارس کے خلا ف کارروائی ، نیکٹا کو متحرک ، انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی ریڈ بک جاری کرنا ، فاٹا میں انتظامی و قانونی اصلاحات کرکے آئی ڈی پیز کی واپسی اور انکے مسائل کا خاتمہ کیا جائے ، کریمینل جسٹس نظام میں بہتری ، ملک بھر میں انسداد دہشت گردی اور کوئیک ریسپانس فورس تعینات کی جائے ، نفرت آمیز تقریر اور لٹریچر کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے شیڈول 4 میں رکھا جائے ، کراچی میں سیکیورٹی اور امن وامان کےلئے اقدامات کیے جائیں ، صوبائی حکومتیں اس حوالے سے بہتر کردار ادا کریں ، دہشت گردی کا مواصلاتی نظام پی ٹی اے کے ذریعے ختم کرکے دہشت گردوں کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کو ختم کیا جائے ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں دہشت گردوں کی تشہیر پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور افغان مہاجرین کی واپسی شامل ہے ۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمن ملک نے تجویز پیش کی کہ فاٹا میں فوجی عدالتوں کو خصوصی عدالتوں کا نام دیا جائے ۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی کے خاتمہ کےلئے فوجی عدالتوں کے قیام کی تجویز پر جماعت اسلامی نے مخالفت کی تاہم پیپلز پارٹی ، پی ٹی آئی ، (ن) لیگ ، ایم کیو ایم ، اے این پی سمیت دیگر جماعتوں نے حمایت کی ۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی میں فوجی عدالتوں کے قیام کے تجویز پر اتفاق ہوگیا ہے ۔ اس حوالے سے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہوگی جس کا فیصلہ وزیراعظم کی سربراہی میں پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں ہوگا ۔ ذرائع کے مطابق ورکنگ گروپ کی جانب سے پیش کی گئی بعض تجاویز پر کمیٹی نے عدم اطمینان کا اظہار کیا تاہم جن سفارشات پر اتفاق ہوگیا ہے ان کو پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس کو بھجوایا جائیگا۔ بعد ازاں (ق) لیگ کے سیکرٹری جنرل سینیٹر مشاہد حسین سید نے صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام پر کافی حد تک اتفاق رائے پیدا ہوگیا ہے ، یہ خوش آئند ہے کہ پہلی دفعہ فوج ، حکومت ، عوام سمیت تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ایک پیج پر ہیں ۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ دہشت گردی کے خلاف پہلی بار سنجیدہ نظر آئے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماءفرید پراچہ نے کہا کہ کمیٹی میں جو بھی طے ہوا ہے اس پر اب عملدرآمد کیا جائے ۔ جماعت اسلامی ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے ، آئین کے اندر رہتے ہوئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ بی بی سی کے مطابق قومی ایکشن کمیٹی نے پورے ملک میں سریع الحرکت فورس تعینات کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی قومی ایکشن کمیٹی نے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی کو مزید فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ کمیٹی میں جن نکات پر اتفاق رائے ہوا ان میں نیکٹا کے ذریعے ملک بھر میں شدت پسندوں کے کوائف اکٹھے کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ قبل ازیں کمیٹی نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کےلئے فاٹا میں فوجی عدالتوں کے قیام تمام مدارس کی رجسٹریشن، نصاب میں تبدیلی اور غیر رجسٹرڈ مدارس کیخلا ف کارروائی ، انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی ریڈ بک کے اجراء، افغان مہاجرین کی واپسی ، فاٹا میں انتظامی و قانونی اصلاحات کے بعد آئی ڈی پیز کی واپسی ، کریمینل جسٹس نظام میں بہتری ، انسداد دہشت گردی اور کوئیک رسپانس فورس کی تعیناتی ، نفرت آمیز تقاریر اور لٹریچر کو انسداد دہشت گردی ایکٹ میں شامل کرنے، دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کے خاتمہ ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں دہشت گردوں کی تشہیر پر مکمل پابندی عائد کرنے سمیت دیگراہم تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے وزیراعظم کو بھجوا دیں۔تجاویز کی حتمی منظوری آج وزیراعظم کی سربراہی میں منعقد ہونیوالی اے پی سی میں دی جائےگی۔ تمام جماعتوں کو شرکت کی دعوت دے دی گئی، عمران بھی شرکت کرینگے۔ داخلہ کی زیر صدارت انسداد دہشت گردی کی پلان آف ایکشن کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہوا، ڈاکٹر شیریں مزاری، عارف علوی، فرید پراچہ، مشاہد حسین سید، سردار کمال شاہ، سینیٹر کلثوم پروین، قمر زمان کائرہ، صاحبزادہ طارق اللہ، سینیٹر صالح شاہ، افراسیاب خٹک، اکرم درانی، بابر غوری، سینیٹر رحمن ملک سمیت وزیراعظم کے ایڈیشنل سیکرٹری فواد حسن فواد، سیکرٹری داخلہ، کوآرڈینیٹر نیکٹا حامد خان ، ورکنگ گروپ کے ارکان خواجہ ظہیر، بیرسٹر ظفر اللہ، وفاقی وزیر برائے سیفران عبدالقادر بلوچ سمیت دیگر ارکان نے شرکت کی ۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں کہا گیا کہ کراچی میں سکیورٹی اور امن وامان کےلئے اقدامات کئے جائیں، صوبائی حکومتیں اس حوالے سے بہتر کردار ادا کریں، پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمن ملک نے تجویز پیش کی کہ فاٹا میں فوجی عدالتوں کو خصوصی عدالتوں کا نام دیا جائے ۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی کے خاتمہ کےلئے فوجی عدالتوں کے قیام کی تجویز پر جماعت اسلامی نے مخالفت کی۔ ذرائع کے مطابق ورکنگ گروپ کی جانب سے پیش کی گئی بعض تجاویز پر کمیٹی نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ بعد ازاں (ق) لیگ کے سیکرٹری جنرل سینیٹر مشاہد حسین سید نے صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام پر کافی حد تک اتفاق رائے پیدا ہوگیا ہے ، یہ خوش آئند ہے کہ پہلی دفعہ فوج ، حکومت ، عوام سمیت تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ایک پیج پر ہیں ۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ دہشت گردی کے خلاف پہلی بار سنجیدہ نظر آئے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماءفرید پراچہ نے کہا کہ کمیٹی میں جو بھی طے ہوا ہے اس پر اب عملدرآمد کیا جائے ۔ جماعت اسلامی ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے ، آئین کے اندر رہتے ہوئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ بی بی سی کے مطابق قومی ایکشن کمیٹی نے پورے ملک میں سریع الحرکت فورس تعینات کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی قومی ایکشن کمیٹی نے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی کو مزید فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ کمیٹی میں جن نکات پر اتفاق رائے ہوا ان میں نیکٹا کے ذریعے ملک بھر میں شدت پسندوں کے کوائف اکھٹے کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ اجلاس میں موجود سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ملک بھر میں شائع ہونے والے شدت پسندانہ رجحان کو ہوا دینے والے قابل اعتراض مواد کو انسداد دہشت گردی ایکٹ1997 کے شیڈول فور کے تحت جرم تصور کیا جائے۔ اجلاس میں مذہبی اجتماعات پر پابندی پر اتفاق کیا گیا ہے جس میں لوگوں کو جمع کرکے کسی مسلک کے خلاف نفرت پھیلانے پر پابندی ہوگی۔ اس کے علاوہ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ پر پابندی لگانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ اجلاس میں دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی روکنے کےلئے ایف آئی اے میں خصوصی ونگ کے قیام پر بھی اتفاق کیا گیا۔کمیٹی کے ارکان نے دھماکہ خیز مواد اور اسلحہ پرکنٹرول سے متعلق صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ اپنے صوبوں کو اسلحہ سے پاک کریں، اس کے علاوہ اس بات پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں انتظامی اور قانونی مسائل کا جلد از جلد حل تلاش کیا جائے۔ اجلاس میں پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے تمام ’سٹیک ہولڈرز‘ کے ساتھ مشاورت کرکے ا±نھیں اپنے وطن واپس بھجوانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ قومی ایکشن پلان کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ وزیراعظم کی سربراہی میں نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم کونسل قائم کی جائے یا نیکٹا کو مستحکم کیا جائے۔ دہشت گردوں کا مواصلاتی نظام منقطع کیا جائے۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکا جائے۔ عسکری تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے اور مدارس کو رجسٹر کیا جائے۔ تمام فریقین سے مشاورت کے بعد افغان مہاجرین کا معاملہ طے کیا جائے۔ کمیٹی کے اجلاس میں تجویز دی گئی کہ انسداد دہشتگردی اور شیڈول 4 میں شامل عسکریت پسندوں اور سرگرم افراد کو گرفتار کیا جائے۔ فاٹا میں فوجی عدالتیں قائم کرکے دہشت گردوں کا ٹرائل کیا جائے۔ نیکٹا وفاقی سطح پر انتہائی مطلوب افراد کی ایک فہرست تیار کرے۔ کالعدم تنظیموں کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ دہشتگردی کے مقدمات کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ وزیراعظم کی زیر قیادت کاﺅنٹر ٹیررازم کونسل کے قیام کی تجویز دی گئی۔ کونسل میں آئی ایس آئی، آئی بی اور ایف آئی اے کے نمائندے بھی شامل ہونگے۔ مدارس کی اصلاحات عمل میں لائی جائیں۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ صوبائی حکومتیں اسلحہ لائسنس اجرا پالیسی میں ترمیم کریں۔ دریں اثنا وزیراعظم نے آج صبح 11 بجے اے پی سی طلب کر لی جس کیلئے حکومت کی طرف سے تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کو دعوت دیدی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری نے بھی عمران خان کی شرکت کی تصدیق کی ہے۔ شاہ محمود بھی شرکت کرینگے۔ اجلاس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو شرکت کی بھی دعوت دی گئی ہے۔ اے این پی نے بھی فاٹا میں فوجی عدالتوں کے قیام کی کھلی حمایت سے گریز کیا۔ اس حوالے سے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی نے کہا ہے کہ پارٹی نے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت نہیں کی۔ افراسیاب خٹک پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ہیں ان سے ابھی بات نہیں ہوئی۔ خبرنگار خصوصی کے مطابق آج بدھ کے روز وزیراعظم کی زیرصدارت ہونیوالے اجلاس میں ان نکات پر اتفاق رائے کی کوشش کی جائیگی۔ ذرائع نے بتایا ہے فوجی عدالتوں کی مخالفت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ارکان نے موقف اختیار کیا کہ ان عدالتوں کو بنانے کےلئے معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر فوجی عدالتیں قائم نہ کی جائیں۔ ذرائع نے بتایا کہ دینی مدارس میں اصلاحات کے معاملہ پر جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے اور غیرقانونی مدارس کیخلاف کریک ڈا¶ن کے معاملہ پر پی پی‘ اے این پی‘ ایم کیو ایم نے اتفاق کیا جبکہ جماعت اسلامی نے اس رائے کی مخالفت کی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ پی پی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی تاکہ اختلاف رائے کے امور پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ دہشتگردی کے خاتمہ کےلئے بھرپور اقدامات کے نکتہ پر تمام جماعتوں نے اتفاق کیا اور اس سلسلہ میں جنگی بنیادوں پر کام پر زور دیا۔ آج اے پی سی میں آپریشن ضرب عضب کا دائرہ پورے ملک تک پھیلانے اور اس کی حکمت عملی پر غور ہو گا۔ نوائے وقت کے مستند ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو پورے ملک میں پھیلانے اور اس کے لئے درکار وسائل کی فراہمی پر بھی غور ہوا۔ فاٹا اکان نے صرف فاٹا میں مخصوص قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی قانون بنائیں پورے ملک میں نافذ کیا جائے۔
قومی ایکشن پلان کمیٹی کا اجلاس: انسداد دہشت گردی کونسل پر اتفاق، مدارس کی اصلاحات اور فوجی عدالتوں پر اختلاف
Dec 24, 2014