مجاہدِ تحریکِ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی نے 2013 ء میں پاکستان اور بنگلہ دیش میں برادرانہ دوستی قائم کرنے کے لئے اپنی قیادت میں "Pakistan Bangladesh Brotherhood Society" قائم کی تھی جِس نے دونوں مُلکوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کِیا ۔ محترم نظامی صاحب کے ہم عُمراور کم عُمر ساتھیوں نے اِس سوسائٹی کو اُن کی وفات کے بعد بھی فعال اور مُتحرّک رکھا ہُوا ہے۔ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں سوسائٹی کے زیرِ اہتمام بنگلہ دیش مسلم لیگ کے وائس پریزیڈنٹ ٗ ڈھاکہ مسلم لیگ کے صدر اور (آل اِنڈیا مسلم لیگ کے قیام کے محرّک) نواب سر سلیم اُللہ خان میموریل کمیٹی کے صدر سیّد نصراُلاحسن کے اعزاز میں مُنعقدہ تقریب نے ماحول کو پاکستان اور بنگلہ دیش میں ’’برادرانہ دوستی‘‘ کے جذبات سے معمُور کردِیا تھا۔
لیکن سیّد نصر الاحسن کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں ’’نظریۂ پاکستان فورم برطانیہ‘‘ کے صدر اور گلاسگو کے ’’بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی اور نبِیرۂ شاعرِ مشرق جناب ولِید اقبال کی شرکت سے محفل کا رنگ اور بھی نِکھر گیا تھا۔ تقریب میں فیصلہ کِیا گیا کہ 16 جنوری 2015 ء کو ’’ آل اِنڈِیا مسلم لیگ کے قیام کے محرّک نواب سر سلیم اُللہ خان کی صد سالہ برسی کی تقریبات بنگلہ دیش کی طرح پاکستان میں اہتمام کِیا جائے گا۔ معرُوف صحافی جناب مُجیب اُلرحمن شامی کی یہ تجویز اتفاق سے منظور کی گئی کہ صدر ممنون حسین اور وزیرِ اعظم نواز شریف ٗنواب سر سلیم اُللہ خان کی صد سالہ برسی کے موقع پر ٗ بنگلہ دیش کی ’’نواب سر سلیم اُللہ خان میمورِیل کمیٹی‘‘ کو یک جہتی اور یگانگت کے پیغام بھجوائیں۔
مہمانِ خصوصی سیّد نصر اُلاحسن ٗ صدرِ مجلسِ ڈاکٹر پروفیسر رفیق احمد ’’بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی ٗ سابق چیئر مین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل ذُواُلفقار علی خان ٗ ڈاکٹر ایم اے صوفی، روزنامہ ’’تجارت‘‘ اور ’’جُرأت‘‘ کے چِیف ایڈیٹر جناب جمیل اطہر ٗ جناب مجیب اُلرحمن شامی ٗ پروفیسر ڈاکٹر پروین خان ٗ جناب ولِید اقبال ٗملک محمد حُسین ٗ بیگم مہناز رفیع ٗ ڈاکٹر اجمل نیازی ٗ حفیظ اُللہ نیازی ٗ ملک محمد طفیل ٗ ذُواُلفقار راحت آصف سہیل اور سیّد شاہد رشید اِس نکتے پر مُتفِق تھے کہ ’’ پاکستان کے دو لخت ہونے پر 16 دسمبر کو رونے دھونے اور پچھتانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مُحب ِ وطن لوگوں کو دونوں مُلکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور حقیقی معنوں میں ’’برادرانہ دوستی‘‘ قائم کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی‘‘۔
سیّد نصر اُلاحسن نے بتایا کہ ’’ بنگلہ دیش کے عوام کو پاکستان ایٹمی طاقت بننے پر بہت فخر ہے۔ جب بھی بنگلہ دیش کے کسی شہر میں بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹِیموں کے درمیان میچ ہوتے ہیں تو 99 فی صد تماشائی پاکستانی کھلاڑیوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن ٗ بنگلہ دیش میں پاکستان مخالف لابی پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور جھُوٹا پروپیگنڈا کرتی رہتی ہے۔ اِس لئے ضروری ہے کہ پاکستان ٗ بنگلہ دیش سے ثقافتی روابط بڑھائے‘‘۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کے سابق پریس منِسٹر ملک محمد حسین نے کہا کہ۔’’ بنگلہ دیش اور پاکستان کی "Brotherhood"کی بنیادیں اُس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتیں جب تک جب بنگلہ دیش میں ہمارا سفارتخانہ فعال اور سفارت کار مُخلص نہ ہو‘‘۔ اِس پر سیّد نصر اُلاحسن نے کہا کہ ’’جی ہاں! بنگلہ دیش میں بھارتی سفارتخانہ بہت فعال ہے اور اُس کے سفارت کار اور بھارتی مِیڈیا ہر سال یکم دسمبر سے 16 دسمبر تک بنگلہ دیش کی نئی نسل کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف زہر بھرتا رہتا ہے‘‘۔
جناب جمیل اطہر اور جناب مجیب اُلرحمن شامی کو اِس بات کی فٍکر تھی کہ’’ کسی نہ کسی طرح دونوں مُلکوں میں صحافتی وفود کا تبادلہ ہو اور بنگلہ دیشی مِیڈیا میں بھارتی پروپیگنڈا کے مقابلے میں پاکستان کا مؤقف بھی شائع/ نشر / ٹیلی کاسٹ ہو‘‘۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ’’ کیا کوئی پاکستانی میڈیا ہائوس ڈھاکہ میں اپنی شاخ قائم کر سکے گا یا نہیں؟‘‘۔ سیّد نصر اُلاحسن نے حاضرینِ مجلس سے کہا کہ ’’ آپ لوگ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے پاکستان سے مُختلف شُعبوں سے تعلق رکھنے والے اصحاب کے وفود بنگلہ دیش بھجوائیں اور خود بھی وفود کی شکل میں تشریف لائیں‘‘۔ جناب نصراُلاحسن کی تجویز کا خیر مقدم کِیا گیا اور شُرکائے مجلس کی طرف سے ٗ دورۂ بنگلہ دیش کا وعدہ بھی کِیا گیا۔ ’’بابائے امن‘‘۔ ملک غلام ربانی نے جناب نصر اُلاحسن سے مُخاطب ہو کر کہا کہ’’برطانیہ میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے شہریوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ زیادہ تر لوگ آپس میں مِل جُل کر رہتے ہیں۔ مَیں ’’نظریۂ پاکستان فورم برطانیہ‘‘ کے صدر کی حیثیت سے آپ اور بنگلہ دیش سے آپ کے 10/8 مُسلم لیگی ساتھیوں کو دورۂ برطانیہ کی دعوت دیتا ہوں۔ برطانیہ میں آپ کے قیام و طُعام کا مَیں بندوبست کردوں گا اِس طرح برطانیہ میں مُقیم پاکستانی اور بنگلہ دیشی بھائیوں میں ‘‘ برادرانہ دوستی اور بڑھ سکتی ہے‘‘۔ مہمانِ خصوصی نے ’’بابائے امن ‘‘ کی دعوت قبول کرلی۔
اپنی افتتاحی تقریر میں پاکستان بنگلہ دیش بردر ہُڈ سوسائٹی کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے مُشترکہ"Heroes" نواب سراج اُلدّولہ ٗ تِیتو مِیر شہید ٗ حاجی شریعت اُللہ ٗ نواب سر سلیم اُللہ خان ٗ قائد اعظمؒ ٗ علّامہ اقبالؒ ٗ قاضی نذر اُلاسلام ٗ شیرِ بنگال مولوی اے کے فضل اُلحق ٗ سیّد حسین شہید سُہروردی ٗ خواجہ ناظم اُلدّین ٗ جناب نوراُلامینٗ جناب محمود علی اور راجا تری ٗ دیورائے اور اُن کی قومی خدمات کا تذکرہ کِیا۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئر مین ڈاکٹر پروفیسر رفیق احمد نے کہا کہ ’’ ہمیں اپنی کوتاہیاں تسلیم کرتے ہُوئے بنگلہ دیش کے ساتھ نئے جذبوں سے تعلقات اُستوار کرنا چاہئیں‘‘۔جناب نصر الاحسن نے کہا کہ’’1971 ء کے بعد بنگلہ دیش میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر کام کرنا دُشوار اَمر ہے لیکن ہم آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہی الیکشن لڑیں گے‘‘۔ 54 سالہ جواں عزم سیّد نصر اُلاحسن کو یقین ہے کہ ایک بار پھر بنگلہ دیش میں مسلم لیگ اہم کردار ادا کرے گی اور دونوں مُلکوں میں کم از کم ’’برادرانہ دوستی‘‘ کو ضروری فروغ مِلے گا۔ آج اگر محترم مجید نظامی ہمارے درمیان ہوتے تو سیّد نصر اُلاحسن کو دیکھ کر کتنے خُوش ہوتے۔ میں نے تو بنگلہ دیش کے ’’فرزندِ مسلم لیگ‘‘ سے ملاقات کرلی۔