انسانیت کی شاید سب سے بڑی بد نصیبی رہی کہ جس کسی کو بھی برسرِ قوت آنے کا موقع تاریخ میں ملا ہے چاہے وہ تلوار کے زور پر تھا، سازش کے بل پر تھا، جمہوری انتخاب کے راستے سے یا کسی اتفاقی حادثے کے تحت اسی کو اپنے متعلق یہ زعم ہو گیا کہ وہ بنی نوع انسانی کا معلم اور زندگی کا مصلح بھی ہے۔ ایسے مصلحین و معلمین کے ہاتھوں میں جب اقتدار کا لٹھ آ جاتا ہے تو وہ عقلِ کل بن بیٹھتے ہیں۔ وہ تشدد کے ہتھیاروں سے انسان کو انسان بنانا چاہتے ہیں اور زندگی کی پیٹھ پر کوڑے برسا برسا کر اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔
جب کہ محسنِ انسانیت ﷺ جو انقلاب پرپا کیا اس کی روح تشدد کی روح نہ تھی بلکہ محبت اور خیر خواہی کی روح تھی۔ حضور ﷺ انسانیت کے لئے حد درجہ رحم دل تھے اور ان کو اولادِ آدم کے ساتھ سچا پیار تھا۔ اپنی دعوت کو آپ نے مثال بنا کر سمجھایا کہ تم لوگ پروانوں کی طرح آگ کے گڑھے کی طرف لپکتے ہو اور میں تم کو کمر سے پکڑ پکڑ کر بچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ قرآن نے اسی لئے آپ کو پیغامبرِ رحمت قرار دیا ہے۔ وہ ہستی اتنا عظیم انقلاب لاتی ہے مگر تشدد سے کام لینے کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی آپ ﷺ کو سنگین سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن آپ نے اپنی دعوت کا سارا دارو مدار صداقت اور اپنے کردار کی پاکیزگی پر رکھا۔ بے شمار اصلاحی و تعمیری تحریکیںہمارے سامنے ہیں۔ مگر ان میں سے ہر ایک نے انسان کو جوں کا توں رکھ کر خارجی نظام کو بدلنے کی تد بیریں کی ہیں لیکن ہر وہ تبدیلی حقیقی مسائلِ حیات کو حل کرنے کے لحاظ سے بالکل رائیگاں رہی جو انسان کو اندر سے نہ بدل سکی۔ حضور اکرمﷺ کے کارنامے کا مبہوت کر دینے والا یہ پہلو ہی اہم ہے کہ انسان اندر سے بدل گیا اور یکسر بدل گیا۔ انسانی روپ میں جو خواہش پرست حیوان پایا جاتا تھا کلمۂ حق کے اثر سے وہ بالکل مٹ گیا اور معاً اس کی راکھ سے خدا پرست اور بااصول انسان ابھر آیا۔ حضرت عمر ؓجیسا مکہ کا بہادر بدلہ تو کہاں پہنچا‘ ذوالبجادینؓ کو دیکھئے کہ کس طرح دولت و آسائش کو لات مار کے درویشانہ زندگی اختیار کرتا ہے، حضرت ابوذرؓ کو لیجئے کہ انقلابی کا جذبہ ہے کہ کعبہ میں کھڑے ہو کر جاہلیت کو چیلنج کیا اور خوب مار کھائی، کعب بن مالکؓ، ابو خیثمہؓ، لبینہؓ،سمیہؓ،جعفرؓ جیسی بیشمار مثالیں گنوائی جا سکتی ہیں جنہوں نے راہِ حق میں سب کچھ قربان کر دیا۔ ان ہستیوں سے وہ معاشرہ بنا اور ایسے قائدین و کارکنوں کے ہاتھوں وہ نظامِ حق چلا جس کے ذریعے وقت کے تمدنی بحران میں راہِ نجات پیدا ہوئی۔ یہ انقلاب اس لحاظ سے بھی لا جواب ہے کہ اسے برپا کرنے والے نے اگر چہ بے انتہا قربانیوں سے اس کی تکمیل کی لیکن اس نے کوئی صلہ نہ لیا اور اپنا سب کچھ انسانیت کی بھلائی کے لئے دے دیا۔ اتنا بھی نہ لیا جتنا اگر لیا جاتا تو شرعاً ہر طرح جائز ہوتا۔ اتنے بڑے کارنامے پر ذاتی غرض و لوث کا خفیف سا دھبہ بھی نہیں دکھائی دیتا، ہے کوئی ایسی مثال۔
محسنِ انسانیتﷺ کا یہ عظیم انقلاب تھا جس کے ہم پاسبان بنائے گئے تھے، یہ تھا کلمۂ حق جس کی امانت ہمیں اس لئے تفویض کی گئی کہ حضورﷺ کی نیابت میں ہم قیامت تک انسانیت کے نجات دہندہ بنیں اور جب بھی زندگی اپنے مسائل میں الجھ جائے اور تمدن بحران میں گھر جائے تو ہم اس کے لئے سہارا بنیںلیکن ہم نے اس کلمۂ حق کی مشعل کو بلند رکھنے میں کوتاہی کی اور اس نظامِ حق کا اپنے ہاتھوں ستیا ناس کر کے رکھ دیا۔ موجودہ عالمگیر مادہ پرستانہ تہذیب کے ظاہر و فریب پردوں کے پیچھے جھانک کر انسانیت کا جائزہ لیجئے تو وہ حالتِ زار سامنے آتی ہے کہ روح کانپ جاتی ہے۔ پوری اولادِ آدم کو چند خواہشات نے اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور ہر طرف دولت و اقتدار کے لئے ہاتھاپائی ہو رہی ہے، آدمیت کے اخلاقی شعور کی مشعل گل ہے، انسانی مذہب و کردار میں ایسا بنیادی فساد آگیا ہے کہ زندگی کا کوئی گوشہ اس کی منحوس پرچھائیں سے محفوظ نہیں رہا۔ اعتقادات و نظریات میں توازن نہ رہا، روحانی قدریں چوپٹ ہو چکی ہیں، سیاست میں جذبۂ خدمت کی جگہ اغراض پرستی گھس گئی ہے، معیشت کے میدان میں ظالم اور مظلوم طبقے پیدا ہو گئے ہیں اور پوری تاریخ ایک خوفناک ڈرامے میں بدل گئی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دورِ حاضر کا قافلۂ فکر بھٹک گیا ہے اور ہم اپنا فرض ادا کرنے کے اہل نہ رہے اور ہماری ہی کوتا ہیوں کا کرشمہ ہے کہ آج پوری حیاتِ انسانی بحران کا شکار ہے۔ متضاد مادہ پرستانہ نظریات کی آویزش ذہنی سکون کو برباد کر رہی ہے۔ عالمی قیادت خدا نا شناس طاقتوں کے ہاتھ میں ہے اور ہم خود انہی طاقتوں کا محتاج بن کر رہ گئے ہیں۔