مَیں مشرقی پنجاب کی سِکھ ریاست ’’ نابھہ‘‘ میں پیدا ہُوا۔ ہوش سنبھالا تو میرے والد صاحب مجھے دو جلوس دِکھاتے رہے ۔ 25 دسمبر کو حضرت عیسیؑ کی پیدائش کے دِن عیسائیوں کا جلوس اور بکرمی سال کے بھادوں کے مہینے کی آٹھویں تاریخ کو وِشنو دیوتا کے اوتار شری کرشن جی مہاراج کی ’’جنم اشٹمی ‘‘ کا جلوس ۔ تیسرے جلوس میں مَیں بھی اپنے والد صاحب رانا فضل محمد ، دو چچائوں کے ساتھ شامل ہوتا تھا ۔وہ تھا 12 ربیع الاوّل کو عید میلا د اُلنبیؐ کا جلوس ۔ جنوری 1947ء میں عید میلاد اُلنبیؐ کے جلوس میں مَیں حیران ہُوا کہ میرے بڑے چچا رانا فتح محمد کچھ دوسرے مسلمانوں کی طرح اونٹ پر سوار تھے اور انہوں نے بھی عربی لباس پہنا اور سر پر رومال عقّال باندھا ہُوا ہے ۔جلوس کے چند لوگ گھوڑوں اوربیل گاڑیوں پر تھے لیکن زیادہ تر پیدل چل رہے تھے ۔ مَیں اپنے والد صاحب اور چھوٹے چچا رانا عطا محمد کے ساتھ پیدل تھا ۔ بعد ازاں مجھے بتایا گیا کہ ’’ عربی لباس پہننے سے ثواب مِلتا ہے کیونکہ اِس طرح کا لباس ہمارے نبی پاکؐ اور اُن کے ساتھی (صحابہ کرامؓ) پہنتے تھے‘‘ ۔ جلوس میں نعت خواں پنجابی زبان میں نعتیں پڑھ رہے تھے نعت کا یہ مِصرع مجھے ابھی تک یاد ہے… ؎
’’ کدی آویں میرے مدنی ؐ ، مَیں تیری راہ دے وِچ کھلّیاں!‘‘
قیام پاکستان کے بعد جب مَیں سرگودھا میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا تو میرے والد صاحب مجھے میلاد شریفؐ کی محفلوں میں لے جایا کرتے تھے ۔ ایک محفل میں مَیں نے ایک نعت خواں سے ’’ کدی آویں میرے مدنی ؐ ، مَیں تیری راہ دے وِچ کھلّیاں!‘‘والی نعت سُنی تو مجھے اپنا لڑکپن یاد آگیا۔ بہت اچھا لگا ۔ اب مجھے اِس مصرعے کا مطلب بھی سمجھ میں آگیا تھا کہ’’ نعت گو شاعر ’’ عورت بن کر ‘‘ نبی اکرمؐ سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ ’’ اے مدینہ منورہ کے رہنے والے میرے (محبوب) کبھی اِس طرف بھی آئو، مَیں (تمہارے انتظار میں) تمہاری راہ میں کھڑی ہُوں‘‘۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا تو پہلی نعت لِکھی۔ دوسری نعت لِکھنے کی توفیق 51 سال بعد مارچ 2007ء میں ہُوئی ، اُس کے بعد کئی اور نعتیں بھی لیکن مَیں نے کسی نعت میں بھی حضورِ اکرمؐ سے بے تکلفی کا مظاہرہ نہیں کِیا اور نہ ہی عورت کا رُوپ دھارا۔
ہمارے اُردو اور پنجابی کے نعت گو شاعروں نے عورت بن کر بے تکلفی کا انداز شری کرشن جی مہاراج کی تعریف میں ہندو شاعروں کے لِکھے گئے ’’بھجن ‘‘ کی تقیلد میں اپنایا۔ شری کرشن جی ، جو ورندرا بن میں گوپیوں کے ساتھ ناچتے گاتے اور بانسری بجاتے تھے۔ ہمارے ایک اور نعت گو شاعر بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہُوئے کہتے ہیں …؎
’’ میرے محمدؐ پیاریا، روضے تے مَینوں بُلا کے تاں ویکھ!‘‘
بے شمار شاعروں نے با ادب رہ کر بھی اچھی نعتیں لکھیں اور ہندو شاعروں نے بھی۔ فروری 2015ء میں مَیں اور برطانیہ میں ’’ نظریۂ پاکستان فورم‘‘ کے صدر گلاسگو کے ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی، تحریک پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ کارکن چودھری ظفر اللہ خان کے گھر مدعو تھے ۔ چودھری صاحب نے ہم دونوں کو اپنی تالِیفات و تصنِیفات کا ایک ایک سیٹ پیش کِیا ۔ ایک کتاب ، ہندو شاعروں کے نعتیہ کلام کا انتخاب ’’فیضانِ رحمتِ بیکراں‘‘ تھی ہے جِس میںآنجہانی چیف جسٹس رانا بھگوان داس کی ’’با ادب نعتیں ‘‘بھی شامل ہیں ۔ اُن کی نعت کا ایک بند ہے… ؎
’’ یا نبی اْلمحترم، یا خواجہ ء ارض و سماؐ
یا رسول اْلمحتشِم ، یا شافع ء روزِ جزاؐ
ہادی کْل امّم، یا مظہرِ نُور خداؐ
مرحبا اھلاً و سہلاً، یا حبیبِ کبریاؐ
السّلام و السّلام، یا محمد مصطفیٰ ؐ‘‘
علامہ اقبالؒ نے بڑے ادب و احترام سے ’’ حضورؐ رسالت مآب میں ‘‘ کے عنوان سے اپنی نظم میں کہا …؎
حضورؐ دہر میں آسودگی ، نہیں مِلتی
تلاش جِس کی ہے ، وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گُل ہیں ، ریاض ہستی میں
وفا کی جِس میں ہو بُو ، وہ کلی نہیں مِلتی‘‘
قیام پاکستان کے 68 سال بعد بھی ، بھوکے ، ننگے اور بے گھر پاکستانی حضورؐ کا تصور کر کے آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ انہیں آسودہ زندگی ، کب نصیب ہوگی؟ اور پاکستان میں مہکنے والے لالہ و گُل میں سے اُنہیں اُن کا حِصہ کب ملے گا ؟ ہمارے عُلماء سیرۃ اُلنبیؐ بیان کرتے ہیں تو ’’ میثاق مدینہ‘‘ کی بنیاد پر ریاست مدینہ کی طرح ریاست پاکستان بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ متمول طبقے کو یہ نہیں بتاتے کہ ’’ میثاق مدینہ‘‘ سے پہلے انصارِ مدینہ نے اللہ اور اُس کے رسولؐ کی خوشنودی کے لئے مہاجرین مکّہ کے ساتھ ۔ ’’ مواخات‘‘ (بھائی چارا) قائم کِیا تھا اور اُنہیں اپنی آدھی دولت / جائیداد کا مالک بنا دِیا تھا۔
دولتمندوں خاص طور پر حکمرانوں / سیاستدانوں کی رشتہ دار خواتین کو کیوںنہیں بتایا جاتا ؟ کہ’’ پیغمبر انقلابؐ سے شادی سے پہلے حضرت خدیجۃ اُلکبریٰ ؓ کے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا تھا ،جو انہوں نے آنحضرت ؐ کی خدمت میں پیش کردِیا تھااور جسے فروخت کر کے آپؐ نے بہت سے غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کرایا اور اُن کی شادیاں کرائیں۔ نوابوںاور جاگیر داروں کی سی زندگی بسر کرنے والے عُلماء ۔حکمرانوں اور دوسرے سیاستکاروں کو کیوں نہیں بتاتے کہ ’’ غزوۂ خندق‘‘ کے موقع پر بُھوک کو ٹالنے کے لئے ہر صحابی نے اپنے پیٹ پر ایک پتھر باندھ لِیا تھا تو حضورؐ نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے ۔ ترانۂ پاکستان کے خالق جناب حفیظ ؔجالندھری نے نبی اکرمؐ کی شان بیان کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …؎
’’ سلام اُس پر ، کہ جِس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اُس پر کہ ، ٹوٹا بُوریا جِس کا بچھونا تھا‘‘
سرور کائناتؐ نے یہ زندگی خود اختیار کی تھی ۔ اُسوۂ حسنہ پر درس دینے اور لینے والے اُن لوگوں کا درد کیوں نہیں بانٹتے؟ جِن کے گھر ٹوٹا بُوریا تو ہے لیکن بھوک کو ٹالنے کے لئے پیٹ پر باندھنے کے لئے پتھر نہیں ہے ۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنی نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام دیتے ہُوئے کہا تھا… ؎
’’ کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا؟ لوح و قلم تیرے ہیں‘‘
اگر دُنیا کے کسی مسلمان بادشاہ/ حکمران نے اپنے مُلک میں مساواتِ محمدیؐ قائم کر کے ’’ محمد ؐ سے وفا‘‘ کا ثبوت دِیا ہوتا تو وہ ’’ لوح و قلم‘‘ کا مالک نہ بن گیا ہوتا؟ ۔ پاکستان میں ہرمذہبی جماعت کا سربراہ نئی اور پرانی نسل کو یاد دِلاتا ہے کہ ’’پاکستان قرآن و سنت کا نظام قائم کرنے کے لئے بنایا گیا تھا ‘‘۔ علاّمہ اقبال ؒنے تو پہلے ہی ہر عاشق رسولؐ سے کہہ دِیا تھا کہ …
’’ قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اِسمِ محمدؐ سے اُجالا کردے‘‘
افسوس تو یہ ہے کہ پاکستان کے تمام بالا دست طبقے ، متحد ہیں اور وہ پاکستان میں اِسمِ محمدؐ سے اُجالا کرنے کا پروگرام ہی نہیں رکھتے ۔ پھر پست کو بالا کون کرے گا؟ اور کِس طرح ؟۔ ایک خوبصورت پنجابی نعت کا مصرع ہے کہ… ؎
’’ سوہنا آیا تے سَج گئے نیں گلِیاں بازار‘‘
سوال یہ ہے کہ سجی ہُوئی گلیوں اور بازاروں میں ہر پست کو گُزرنے کا موقع کیسے مِلے گا؟ ۔ دہر میں اِسم محمدؐ سے اُجالا کب ہوگا؟۔