کراچی (سٹاف رپورٹر+ این این آئی+ نوائے وقت رپورٹ) سندھ کابینہ نے وفاقی حکومت کی جانب سے رینجرز کو اختیارات دینے کے حوالے سے سندھ اسمبلی کی قرارداد کو مسترد کرنے اور ازخود اختیارات دینے کوصوبائی حکومت کے معاملات میں مداخلت اور خلاف آئین قرار دیا ہے۔ سندھ حکومت نے اس معاملے پر وفاق سے محاذ آرائی کے بجائے ڈائیلاگ پالیسی کے تحت حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس معاملے پر وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو مکمل مینڈیٹ دیدیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اس معاملے پر وزیراعظم نوازشریف سے رابطہ کریں گے اور رینجرز کے اختیارات کے معاملے پر سندھ حکومت کا موقف پیش کریں گے۔ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نوازشریف کو جلد فون کرینگے اور خط بھی لکھا جائیگا۔ وزیراعظم سے باضابطہ مطالبہ کیا جائیگا کہ امن وامان سے متعلق فیصلوں میں وفاق صوبائی حکومت کو اعتماد میں لے۔ اگر وفاق نے سندھ حکومت کے تحفظات کا ازالہ نہیں کیا تو پھر آخری آپشن کے طور پر آئین وقانون کے مطابق عدالت سے صوبائی خودمختاری کے تحفظ کیلئے رجوع کیا جائیگا۔ فیصلے بدھ کو سندھ کابینہ کے وزیراعلیٰ ہائوس میں ہونے والے اجلاس میں کئے گئے۔ صدارت وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کی۔ باخبر ذرائع کے مطابق اجلاس میں سیاسی صورتحال، وفاق کی جانب سے سندھ اسمبلی کی رینجرز کے اختیارات سے متعلق قرارداد کو مسترد کرنے، وفاق کی صوبائی حکومت کے امور میں مداخلت، ایف آئی اے اور نیب کی صوبائی اداروں میں بغیر اجازت کارروائیوں پر تفصیلی غور کیا گیا۔ ان حالات میں وفاق وزراء خصوصا وفاقی وزیر داخلہ کی سندھ حکومت پر الزام تراشیوں کاجائزہ لیا گیا۔ سندھ کابینہ نے وفاق اور اسکے اداروں کی سندھ حکومت کے امور میں مداخلت کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ کراچی آپریشن کے نگراں وزیراعلیٰ سندھ ہیں اور آپریشن صوبائی حکومت کی مشاورت سے ہو رہا ہے۔ وفاق آئینی طور پر پاپند ہے کہ وہ امن وامان کے فیصلوں میں سندھ حکومت کی رائے کو شامل کرے۔ سندھ حکومت نے رینجرز کو وہی اختیارات تقویض کئے ہیں جو پہلے دیئے گئے تھے۔ ان پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ کسی بھی اہم کارروائی سے متعلق وزیراعلیٰ سندھ کو آگاہ کیا جائے اور انکی منظوری سے کارروائی کی جائے۔ سندھ کابینہ نے وفاق اداروں کی صوبائی اداروں میں مداخلت کو صوبائی خود مختاری کے خلاف قرار دیا۔ اجلاس طے کیا گیا کہ اس معاملے پر وفاق سے باضابطہ طور وزیراعلیٰ سندھ رابطہ کریں گے اور آگاہ کیا جائے گا کہ رینجرز کو اختیارات سندھ حکومت کی مشاورت سے دیئے جائیں۔ وفاق ازخود فیصلے کرنے سے گریز کرے۔ وزیراعلی سندھ وزیراعظم سے مطالبہ کریں گے کہ نیب اور ایف آئی اے کی کارروائیوں کو روکا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کابینہ نے طے کیا ہے کہ صوبائی خود مختاری کے تحفظ کے لیے ہر فورم سے رجوع کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے واضح کیا ہے کہ اس معاملے پر وفاقی حکومت سے دوٹوک انداز میں بات چیت کی جائے گی۔ اجلاس میں وزارت داخلہ کی طرف سے اسمبلی کی قرارداد مسترد کرنے پر اظہار تشویش کیا گیا اور کہا گیا کہ وفاق نے انتظامی لحاظ سے رینجرز کو اختیارات دیئے ہیں۔ آئینی لحاظ سے حق صوبے کا ہے، مسترد کرنے اور رینجرز کو ازخود اختیارات دینے سے صوبے، وفاق میں دوریاں بڑھیں گی۔ چودھری نثار کے بیان سے متعلق حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ رینجرز کے معاملے پر وفاق کا فیصلہ ماورائے آئین ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ رینجرز اپنے اختیارات کے مطابق کام کرتی رہے گی۔ مشیر اطلاعات سندھ مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں رینجرز کے اختیارات پر قدغن نہیں لگا رہے، وزیراعظم خود مسئلہ حل کریں، وفاق کے ساتھ کسی قسم کی چپقلش نہیں چاہتے تاہم اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر ہی کام کرنا چاہئے۔ قبل ازیں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے ملاقات کی اور سیاسی صورت حال، وفاقی حکومت کی جانب سے رینجرز اختیارات کا نوٹیفکیشن ازخود جاری کرنے سمیت دیگر امور کا جائزہ لیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت نے نئی حکمت عملی کے تحت حکومت مخالف اتحاد بنانے کیلئے رابطے تیز کر دیئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری نے خود مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے رابطوں کا آغاز کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے مصدقہ ذرائع کے مطابق اے ا ین پی کے اسفند یار ولی سے آصف علی زرداری کا رابطہ ہوا ہے، آئندہ چند دنوں میں مولانا فضل الرحمن اور فاٹا کے اہم رہنمائوں سے بھی رابطے کئے جائیں گے۔ آصف علی زرداری دبئی سے مختلف سیاسی رہنمائوں کے ساتھ رابطے کریں گے جبکہ بلاول بھٹو پاکستان میں ہم خیال سیاسی جماعتوں سے رابطے کریں گے، اس کے علاوہ پاکستان میں موجود غیرملکی سفیروں سے بھی ملاقاتوں کا سلسلہ تیز کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری سابق اتحادی جماعتوں کے ساتھ رابطے کر کے نیا حکومت مخالف پریشر گروپ بنانے کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ آصف زرداری اس ضمن میں جلد چودھری برادران سے بھی رابطہ کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے اپنے قریبی رفقا سے مشورہ کیا ہے کہ اگر حالات زیادہ خرابی کی طرف گئے تو دبئی سے لندن شفٹ ہو جائیں گے اور وہاں الطاف حسین سے بھی ان کی ملاقات ہو سکتی ہے۔ ملاقات کی صورت میں اختلافات ختم کر کے اکٹھے چلنے کی کوشش کی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ایک بڑی کاروباری شخصیت جس کے حکومت میں بھی اہم ذمہ داروں سے رابطے ہیں اس سے بھی آئندہ36 گھنٹوں میں آصف زرداری کی دبئی میں ملاقات متوقع ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری سینیٹر تاج حیدر نے بھی وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ کی منتخب اسمبلی کی قرارداد کے مطابق بھیجی گئی سمری کے مسترد کرنے کے عمل کو جمہوریت دشمنی اور سندھ کے منتخب نمائندوں اور عوام کی توہین کے مترادف قرار دیا ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ وقائع نگار خصوصی+ بی بی سی) سینٹ میں وفاقی حکومت کی طرف سے حکومت سندھ کی رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے سمری مسترد کرنے کو صوبائی خودمختاری میں مداخلت قرار دیتے ہوئے احتجاج کے بعد پی پی پی اور اے این پی نے ایوان سے واک آئوٹ کیا۔ اپوزیشن کے سینیٹرز نے ایوان میں گرما گرم بحث کی۔ سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ صوبائی معاملات میں مداخلت بند کی جائے، عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے کہ پی پی پی دہشت گردوں کی ہمدرد ہے۔ پیپلز پارٹی تو دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پہلی صف میں ہے۔ سندھ اسمبلی نے فیصلہ کیا ہے کہ رینجرز اختیارات سے تجاوز نہ کرے۔ سیاسی لڑائی میں اداروں کو فریق نہ بنایا جائے۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ وزیر داخلہ نثار جس طرح آنکھیں دکھا رہے ہیں یہ ناقابل قبول ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وفاق نے رینجرز اختیارات کے معامل پر آئین کی خلاف ورزی کی، سندھ کی سمری مسترد کر کے وفاق کے ساتھیوں نے صوبے پر حملہ کیا ہے۔ یہ حملہ راجہ پورس کے ہاتھیوں کا حملہ بن جائے گا۔ پہلی بار وفاق نے صوبوں کے اختیارات میں مداخلت کی۔ وفاقی حکومت کا اقدام غیردانشمندانہ ہے۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ وفاق نے جس طرح سندھ کی سمری مسترد کی ہے یہ قابل مذمت ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹرز کا کہنا تھا کہ آئینی اختیارات کو قانون کی بنیاد پر نہیں چھینا جا سکتا، غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے کہ سندھ حکومت نے رینجرز کے اختیارات میں کمی کر دی، قومیت پرست جماعتوں کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ سندھ کی حکومت فوج اور رینجرز کے خلاف ہے سیاسی تقسیم میں اداروں کو حصہ نہ بنایا جائے۔ سینیٹر سعید غنی نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کے اختیارات پر قدغن لگائی گئی ہے وفاق نے سندھ پر حملہ کیا ہے ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ آئین میں صوبائی حکومت کے اختیارات واضح ہیں وفاق میں بیٹھے لوگوں نے حکیم اللہ محسود کی موت پر ’’ماتم‘‘ کیا تھا، آج دہشت گردی کے خلاف جنگ کے چیمپئن بن رہے ہیں۔ واک آئوٹ کے بعد گفتگو کرتے ہوئے ارکان نے کہا کہ آرٹیکل 147 صوبائی حکومت کا اختیار ہے اسے سبوتاژ نہ کیا جائے، وفاق اپنا نوٹیفکیشن واپس لے اور کراچی آپریشن کے کپتان کو بلا کر بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی تصادم نہیں چاہتے تاکہ آپریشن متاثر نہ ہو‘ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے آپریشن کیلئے مانیٹرنگ کمیٹی کے خلاف آئینی اور قانونی مطالبہ پر کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت آئین اور قانون کے تحت دیئے گئے اختیارات سے دست بردار نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ رینجرز نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مار کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو ہمیں یہ یقین دلایا گیا تھا کہ آئندہ شکایات پیدا نہیں ہوں گی لیکن وعدہ پر عمل نہیں ہوا۔ سعید غنی نے کہا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ آپریشن کو متنازعہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ چودھری نثار کی پریس کانفرنس نے معاملات خراب کئے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہیں باقی سب ان کے مزارعے یا رعایا ہیں۔ سعید غنی کا کہنا تھا کہ حکیم اللہ محسود کی موت پر ماتم کرنے والے وزیر داخلہ آج دہشت گردی کے خلاف جنگ کا چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کو دہشت گردی کے ساتھ ملانا درست نہیں ہے۔ اْنھوں نے کہا کہ اْن کی جماعت نے شدت پسندی کے خلاف جنگ میں دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ رینجرز کو اختیارات دینے کے معاملے پر وفاق اور صوبے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سنیٹر الیاس بلور کا کہنا تھا کہ اْن کی جماعت صوبائی خودمختاری کے معاملے پر پاکستان پیپپلز پارٹی کے ساتھ ہے۔ اْنھوں نے کہا کہ صوبائی معاملات میں بے جا مداخلت سے وفاق کی اکائیاں کمزور ہوں گی جس کا نقصان ملک کو ہو گا۔
رینجرز اختیارات: وزیراعلیٰ سندھ‘ وزیراعظم سے رابطہ کرینگے
Dec 24, 2015