وزیراعظم نواز شریف بوسنیا کے مختصر دورے پر تھے جب اُنہوںنے کہا کہ ”کوئی آئے یا جائے مُلک کے لئے اچھا ہونا چاہیے۔ مجھے خوشی ہے کہ آصف زرداری صاحب وطن واپس آچکے ہیں۔ میرا اُن سے اچھا تعلق رہا ہے اور اچھا ہی رہنا چاہیے۔ مَیں چاہتا ہُوں کہ ”زرداری صاحب کی آمد سے ہمارے پاکستان پیپلز پارٹی سے ہمارے خوشگوار تعلقات قائم ہو جائیں۔ مَیں یہ بھی چاہتا ہُوں کہ زرداری صاحب اپنی پارٹی اپنے ہاتھوں میں رکھیں“۔ جنابِ وزیراعظم نے گول مول بات کی ہے اور یہ ترکیب نہیں بتائی کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اپنے بیٹے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھوں سے چھڑا کر اپنے ہاتھوں میں کیسے لے لیں؟
پیپلز پارٹی کی تاریخ میں صِرف ایک بار ہُوا جب پارٹی کی شریک پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی وزارتِ عظمی کے دوسرے دَور میں ( دسمبر 1993ءمیں ) پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کر کے اپنی والدہ¿ محترمہ اور پارٹی کی چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو کو برطرف کر کے خود چیئرپرسن منتخب ہو گئیں اور پارٹی کو اپنے ہاتھوں میں لے لِیا تھا ۔ یاد رہے کہ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں بڑے ملزم کی حیثیت سے جیل جانے سے قبل بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن نامزد کر گئے تھے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو جب تک زندہ رہیں ، اُنہوں نے اپنی پارٹی کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں پکڑے رکھا۔ اُنہوں نے اپنی زندگی میں اپنے ” شوہر نامدار“ کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا۔ دونوں بار زرداری صاحب مملکت کے ” مردِ اوّل“ ہی کہلائے۔ محترمہ کے قتل کے بعد اور اُن کی ”برآمدہ وصِیت“ کے مطابق جنابِ زرداری نے اپنے بیٹے کو پارٹی کا چیئرمین نامزد کِیا اور خود اپنے بیٹے کے ماتحت پارٹی کے شریک چیئرمین ”منتخب“ ہوگئے تھے۔ جنابِ آصف زرداری نے جب پیپلز پارٹی اپنے اکلوتے اور پیارے بیٹے کے ہاتھوں میں دی تھی تو اُس کے ساتھ ہی اُنہوں نے ”بلاول زرداری“ کے نام کے ساتھ ”بھٹو“ کا لاحقہ بھی لگا دِیا تھا اور اپنی دونوں بیٹیوں بختاور زرداری اور آصفہ زرداری کے ناموں کے ساتھ بھی۔
فرض کِیا کہ وزیراعظم نواز شریف کی خواہش یا "Planning" کے مطابق زرداری صاحب پیپلز پارٹی کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں تو کیا وہ بھی آصف علی بھٹو زرداری کہلایا کریں گے؟ کیونکہ پیپلز پارٹی کا جیسا تیسا ووٹ بنک ہے وہ تو ”ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام سے ہے؟ یوں تو جنابِ آصف زرداری بہت ہی ذہین سیاستدان ہیں لیکن وہ وزیراعظم نواز شریف سے نئے سرے سے ”خوشگوار تعلقات“ قائم کرنے کے لئے پیپلز پارٹی اپنے بیٹے کے ہاتھوں سے واپس لینے کے لئے اُسے کیا یہ حُکم دیں گے ؟ کہ ”اے جان پِدر! اب میرے بجائے تم میرے دُبئی محل میں رہا کرو!۔ مَیں وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے کہہ کر تمہیں ہر ماہ شکار کی "Net Practice" کے لئے تمہیں دس پندرہ تلور بھجوا دِیا کروں گا۔
11 مئی 2013ءکے عام انتخابات سے پہلے اور اُس کے بعد بھی وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو کر میاں شہباز شریف عام جلسوں میں معروف اور غیر معروف شاعروں کا کلام گاتے ہُوئے اپنی تقریروں میں عوام سے خطاب کرتے ہُوئے اعلان کِیا کرتے تھے کہ ”اگر مَیں نے قوم کی لُوٹی ہُوئی دولت وصول کرنے کے لئے آصف زرداری کو، لاڑکانہ، کراچی، اسلام آباد اور لاہورکی سڑکوں پر نہ گھسِیٹا تو میرا نام بدل دینا“۔ پھر وزیراعظم صاحب نے برادرِ خورد کو سمجھایا کہ ”اب جنابِ زرداری کا احترام کِیا کریں“۔ بلاول جی وزیراعظم نواز شریف پر تنقید کرتے ہیں تو میاں شہباز شریف کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ فرض کِیا کہ جنابِ زرداری پیپلز پارٹی کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں تو ایک تو میاں شہباز شریف جنابِ زرداری کا اور زیادہ احترام کرنے لگیں گے اور دوسرے بلاول جی بھی اپنے ”آڑے ہاتھوں کا“ کہیں اور استعمال کرنے لگیں گے۔
ایک دَور میں جنابِ زرداری اور میاں نواز شریف میں قُربتیں اتنی زیادہ بڑھ گئی تھیں کہ زرداری صاحب بڑے ہی خلوص سے کہا کرتے تھے کہ ”میاں نواز شریف صاحب! میری اور آپ کی دوستی کئی نسلوں تک چلے گی“۔ اِس موضوع پر 5 جولائی 2014ءکو ”نوائے وقت“ میں میرے کالم کا عنوان تھا ”پاکستان پیپلز مسلم لیگ (ن)“ مَیں نے لِکھا تھا کہ ”اگر جنابِ زراری اور وزیراعظم نواز شریف کی دوستی اِس طرح پھلتی پھولتی رہی تو ممکن ہے کہ مستقبل میں بلاول بھٹو زرداری اور حمزہ شہباز پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ضم کر کے ایک پارٹی بنالیں جِس کا نام ہوگا ”پاکستان پیپلز مسلم لیگ (ن)“۔
ایک بار پھر فرض کرلِیا جائے کہ جنابِ آصف زرداری پیپلز پارٹی کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں تو بلاول جی کے اُس خواب کا کیا ہوگا کہ ”2018ءکے عام انتخابات کے بعد میرے بابا سائِیں صدرِ پاکستان منتخب ہوں گے اور مَیں وزیراعظم!“۔ ایسی صورت میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز اور کیپٹن ( ر) محمد صفدر کا کیا ہوگا؟ جنابِ زرداری اگر اپنی پارٹی اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو اُن کی ہمشرہ محترمہ فریال تالپور کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جنابِ زرداری نے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے کاغذاتِ نامزدگی داخل کئے تو محترمہ فریال تالپور اُن کی "Covering Candidate" تھیں۔ اگر خدانخواستہ زرداری صاحب کو الیکشن کمِشن نااہل قرار دے دیتا تو تاریخ میں صدرِ پاکستان کی حیثیت سے نام تو محترمہ فریال تالپور کا لِکھا جاتا؟
عین ممکن ہے کہ ”مُلک و مِلّت کے مفاد“ میں جنابِ زرداری اپنی پارٹی اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو وہ بھی تو جنابِ وزیراعظم کے سامنے کچھ اپنے مطالبات بھی رکھ سکتے ہیں۔ کم از کم یہ تو کہیں گے کہ ”میاں صاحب! میرا اکلوتا بیٹا ضد کر رہا ہے کہ اُس کے ”گو نثار گو“ کے نعرے یا مطالبے کو پذیرائی بخشیں!“۔ جنابِ زرداری کی طرف سے یہ بھی مطالبہ کِیا جاسکتا ہے کہ ”میاں صاحب! لاہور میں میرا بم پروف بلاول ہاﺅس سُونا پڑا ہے۔ مَیں اپنے بہنوئی منّور تالپور کا پنجاب کا ڈومیسائل بنوا لوں گا، کچھ ایسا بندوبست کر دیں کہ وہ پنجاب کا وزیراعلیٰ منتخب ہو جائے!“۔
میرے دوست بابا ٹلّ کبھی کبھی میرے خواب میں آتے ہیں لیکن وہ رُوحانی قوت کے مالک نہیں ہیں۔ کبھی کبھی مَیں سوچتا ہُوں کہ ”اگر مجھے کوئی ایسا پِیر کامل مِل جائے جو اپنی رُوحانیت سے سارے سیاستدانوں اور مولوی صاحبان کی صلح کرادے۔ وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگیں اور پاکستان کے مفلوک اُلحال عوام کی خدمت کرنے کے لئے متحد ہو جائیں۔ خود غرضی، لالچ، اقربا پروری اور قومی دولت لُوٹنے کا کاروبار ختم کردیں اور قائداعظم کی خواہش کے مطابق پاکستان کو حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کے لئے شانہ بشانہ کام کریں“۔ اب میری خواہش ہے کہ ”کیوں نہ جنابِ زرداری ہی میرے اور قوم کے پِیر کامِل کا روپ دھار لیں اور جنابِ وزیراعظم کی خواہش کے مطابق اپنی پارٹی کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اِس نیک کام کا آغاز کردیں۔ فیصلہ اب جنابِ زرداری کو کرنا ہے۔ نہیں تو دُبئی واپس چلے جائیں اور پھر کبھی واپس نہ آئیں!۔
”زرداری ، پیپلز پارٹی اپنے ہاتھوں میں لے لیں!“
Dec 24, 2016