پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر جنم لے چکی ہے اس کے نئے جنم سے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے یا بھٹو کے بغیر پیپلز پارٹی کا خواب دیکھنے والے جز بز دکھائی دے رہے ہیں
No More Bhutto, No More PPP
کی تصوراتی دنیا میں بھٹکنے والے اب بلاول بھٹو زرداری میں خامیاں تلاش کر رہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے کوئی ایسی خوش فہمی لاحق نہیں کہ ایسے عناصر جو پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید سے نفرت کرتے تھے انکے دل میں بلاول بھٹو زرداری کیلئے نرم گوشہ پیدا ہو سکتا ہے، ان کو آصف علی زرداری اس لئے پسند نہیں کیونکہ آصف علی زرداری نے قائد عوام کی فلاسفی اور محترمہ بینظیر بھٹو کے مشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اگر آصف علی زرداری قائد عوام بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے نظریے سے انحراف کرتے تو یقیناً ان عناصر کیلئے قابل قبول ہو جاتے جن کا خون بھٹو کا نام سن کر کھولتا ہے۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو بخوبی علم ہے کہ انہیں سیاست میں دو چیزیں ورثے میں ملی ہیں۔ ایک چیز بھٹو سے والہانہ عقیدت رکھنے والوں کی حمایت اور محبت دوسری چیز بھٹو سے نفرت رکھنے والوں کی نفرت۔ محبت بھی ایسی کہ جیالے ان پر جان قربان کرنے کیلئے تیار اور نفرت ایسی جس پر مرحوم صحافی اظہر سہیل کی تحریر صادق آتی ہے کہ "اگرچہ میرا تعلق بھی اس حلقے سے ہے میں یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ یہ حلقہ کینہ پرور ہوتا ہے۔ اگر ان سے اپنا ساتھی بھی کسی بات پر اختلاف کرے تو یہ اسے کافر اور گردن زدنی قرار دینے میں لمحہ بھر بھی توقف نہیں کرتا۔" دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ لوگ بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مفروضوں میں پناہ تلاش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو اپنے نانا اور والدہ کی سیاست کرتے ہیں یا اپنے والد کی۔ اس طرح کے مفروضے منافقت کی کیسی پستی ہے۔سوال یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے آخر کیا غلطی کی کہ انہیں بھٹو کی سیاست سے دوری کا طعنہ دیا جائے۔ ہاں انہوں نے مفاہمت اور برداشت کی بات کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ قائد عوام بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد جمہوریت کی خاطر مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو نے 70کلفٹن میں ان سیاستدانوں کا بھی استقبال کیا جو زندگی بھر بھٹو کے مخالف رہے۔ ہاں آصف علی زرداری میثاق جمہوریت پر ثابت قدم رہے کیونکہ میثاق جمہوریت پر محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے دستخط کئے تھے۔اب آتے ہیں بحیثیت صدر کس مقام پرقائد عوام بھٹو کے فلسفے اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے مشن کو بھولے؟ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے زندگی بھر 1973ء کے آئین کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے جدوجہد کی تھی۔یہ آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیت تھی کہ پارلیمنٹ میں فیصلہ کن اکثریت نہ ہونے کے باوجود آئین شکن جنرل مشرف کو ایوان صدر چھوڑنے پر مجبور کیا اور پھر 1973ء کے آئین کو اصل شکل میں بحال کرکے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے مشن کی تکمیل کی۔اس طرح پارلیمنٹ کو بااختیار بنانا بھی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا مشن تھا صدرآصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے وہ اختیارات جو آمروں نے غصب کئے تھے پارلیمنٹ کو واپس دئیے۔ آصف علی زرداری کو یاد تھا کہ انکے قائد بھٹو نے صوبوں کو خودمختاری دینے کا وعدہ کیا تھا۔ دنیا نے دیکھا آصف علی زرداری نے صوبوں کو خودمختاری دی۔محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے عہد کیا تھا کہ وہ ان شدت پسندوں جنہوں نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرکے سوات سے قومی پرچم اتار دیا تھا کو شکست دے کر دوبارہ قومی پرچم سربلند کریں گی۔ آصف علی زرداری نے سوات میں دوبارہ قومی پرچم سربلند کرکے شہید بی بی کے عہد کی تکمیل کی۔ گلگت بلتستان کے عوام کو اپنا صوبہ دینے کا وعدہ محترمہ شہید کا تھا۔ آصف علی زرداری نے وہ وعدہ بھی پورا کیا۔ اگر آصف علی زرداری کے مخالفین، بغض اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو انہیں صاف نظر آئیگا کہ آصف علی زرداری بھی اپنے قائد بھٹو شہید، محترمہ بی بی شہید کی طرح سچے قوم پرست پاکستانی ہیں۔ اگر گوادر سنگاپور سے واپس لیکر اسے واپس لیکر چین کو نہ دیا جاتا تو آج راہداری کا کوئی وجود ہوتا؟ پاک ایران گیس پائپ لائن ان کا کارنامہ تھا۔ موجودہ حکومت نے اس منصوبے کو پس پشت ڈال دیا۔ دراصل بلاول بھٹو کا ذہن صاف ہے۔ انہوں نے اپنی سیاست کا تعین کر لیا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انکے نانا اور والدہ کی ترجیحات کیا تھیں جن کی بنیاد پر انہیں راستے ہٹایا گیا۔یہی وجہ ہے کہ 29دسمبر 2007ء کو جمہوریت بہترین انتقام کی بات کرکے ان عناصر کے عزائم کو خاک میں ملا دیا جو پاکستان کے ٹوٹنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی عظیم ماں کے سوئم کے موقع پر یہ بات کرکے یہ بتا دیا تھا کہ میری ماں شہادت سے پہلے سکھا گئی ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ مورخ نے درست فرمایا تھا کہ دھرتی کبھی بانجھ نہیں ہوتی۔ دھرتی وقت بوقت ایسی شخصیات کو جنم دیتی ہے جو باکمال اور بے مثال ہوتے ہیںجو انکی پہچان بن کر عزت اور شان میں اضافہ کرتی ہیں۔ عجب اتفاق ہے کہ راولپنڈی جہاں بلاول بھٹو زرداری کے نانا کو پھانسی دی گئی تھی اور عظیم ماں کو شہید کیا گیا تھا اس شہر سے صرف 100کلومیٹر دور جہلم کے باسی نصیر کوی نے ایک نظم لکھی تھی
یہ بازی خون کی بازی ہے، یہ بازی تم ہی ہارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے
معروف صحافی اور شاعر عباس اطہر مرحوم کا ماننا تھا کہ بھٹو ایک آسمانی راز ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ گزشتہ 39 سال سے ملک کی سیاست بھٹو کی حامی اور بھٹو کی مخالفت پر ہو رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے بانی نے کہا تھا کہ دیکھنا یہ ہے کہ آخری قہقہہ کون لگاتا ہے اور میں اپنی ابدی آرام گاہ میں عوام کے فتح مند قدموں کی چاپ سننے کا منتظر رہوں گا۔ یقینا وہ وقت آچکا ہے کیونکہ ایک بار پھر بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں بھٹو میدان میں آچکا ہے۔