امور ِ خارجہ میں کمال کی مہارت رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ہر ملک ‘ معاشرے قوم یا تہذیب کی ایک ’بنائے اتحاد‘ ہوتی ہے جغرافیائی حدود ‘تہذیب رنگ و نسل ایسے بنیادی نکات کی حیثیت رکھتے ہیں جو قوموں کے استحکام وترقی کے علاوہ اُن کے مابین باہمی امن و خوشحالی کا موجب بنتی رہتی ہیں متمدن اور تہذیب ِ یافتہ قوموں کے مابین اِن ہی روشن اصولوں کی راہ پر اگر قومیں چلتی رہیں تو انسانی ترقی ایک خود تکنیکی عمل کے ذریعے سے ’مشترکہ مقاصد ‘ کے ممکنہ وسائل کی کئی جہتیں ‘ کئی راہیں کھو لتی رہتی ہے اور کسی قسم کی باہمی چپقلش آویزش کے بغیر ترقی کا پہیہ چلتا رہتا ہے پڑوسی ملکوں اور قوموں کے مابین یہ ہی وہ ’بنائے اتحاد‘ ہے جو صرف اور صرف انسانی احترام کے تمام واجب حقوق کی نہ صرف حفاظت کا ضامن ہوتا ہے، بلکہ علاقائی ممالک کے سبھی عوام کو بلارنگ و نسل اور مہذہب وملت یہ حق تفویض کرتا ہے، وہ اپنی آزادی پر مطمئن رہیں اور اپنے کسی پڑوسی قوم کی آزادی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کا تصور بھی نہ کریں مہذب سفارتی آداب کی دنیا میں اِسے ’افکار ِ جہانبانی ‘ بھی کہا جاتا ہے مگر ‘ جہاں یا جس علاقہ خطہ میں کوئی ایسی قوم یا ایسی قوم کے چند لیڈر قائد ’فکری نظری شکست خوردگی‘ کے لاعلاج مرض کا شکار ہوجائیں نسل درنسل اپنی ’فکری نظری شکست خوردگی‘ کا ہر قیمت پر بدلا لینے پر کمربستہ رہیں تو پھر ایسی ’جارحیت پسندی ‘کی راہ پر گامزن قوم ’علاقائی کشور کشائی‘ کے زعم میں نہ صرف اپنے پڑوسی ممالک کے لئے مسلسل خطرہ بن جاتی ہے بلکہ ایک لحاظ سے ایسی فکری ونظر ی قوم کے نخوت پسند لیڈر اپنی قوم کی مستقل ترقی تو رہی ایک جانب‘ اُن کے مستقبل کے امن کے لئے بھی کئی نوع کے سنگین خطرات کے پہاڑ کھڑے ہو جا تے ہیں، بدقسمت سے جنوبی ایشیا میں بھارت نے کچھ ایسا ہی مجموعی متشددانہ رویہ اختیار کرکے ایک جانب مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کے حوالے سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنادیا ہے بھارت کی جانب سے کسی قسم کے ممکنہ انتہائی اقدام کا فوری منہ توڑ اور دوٹوک جواب دینے کے لئے پاکستان نے جوہری ڈیٹرنس حاصل کیا اِسی طرح سے بھارت کی سرحد کے ایک طرف مستقبل کی تیزی سے ابھرتی ہوئی سپرپاور چین ہے ‘ پھر نیپال کی سرحد ہے جسے بھارت سے ہماری طرح کئی خطرات لاحق رہتے ہیں چونکہ نیپال کو اپنی ضروریات ِ زندگی کے لئے سمندری تجارت کی خاطر انڈیا پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے اور جس کی آڑ میں آئے روز بھارت نیپال کی سرحدی ناکہ بندی کر نے کی دھمکیاں دیتا چلا آرہا ہے 971 کے16 ؍دسمبر کے سیاہ دن کو پاکستانی قوم کبھی فراموش کر نہیں سکتی ’سقوط ِ مشرقی پاکستان ‘ عالمی سازش تھی ‘ علاقائی سازش تھی یا پھر اُس وقت ملک کے’ جلد باز سیاست دانوں‘ کی کج فہمی‘ یا اُس وقت کی اعلیٰ سطحی ’ملٹری قیادت ‘ میںٹرانسفر آف پاور کا فیصلہ کرنے کی کمی یا ’اہلیت‘ نہ تھی بہر حال! اِس سب کے باوجود دنیا بھر کے غیر جانبدار سیاسی محققین کا متفقہ تجزیہ ہے کہ بھارت نے قیام ِ پاکستان سے ہی سازشیں کرنا شروع کررکھی تھیں کہ وہ پاکستان کو یکجا نہیں رہنے دے گا نریندرامودی جو آج کل خوب جگہ جگہ مجرمانہ اعترافات کرتا پھر رہا ہے یہ اِس کا ایک بیّن ثبوت ہے کاش ! بنگلہ دیشی قیادت کا ضمیر جاگے ؟ کاش ! بنگلہ دیشی سیاسی جماعتیں اپنی قابل ِ فخر مسلم شناخت کا بیدار مغز بھرم قائم رکھیں ‘ کاش ! وہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ ثابت کریں کہ بنگلہ مسلم قوم وہ قوم ہے جس کے اسلاف نے بر صغیر کی تاریخ میں انگریز سامراج کے خلاف ‘ انگریزوں کی ابتدائی غلامی کے خلاف اُن کے آباء واجداد کو لوہے کے چنے چبوادئیے تھے، حسینہ واجد کی حکومت جس شرمناکی اور ذلت آمیز سفارتی محکومیت کا شکار ہوکر نئی دہلی کے سامنے ہمہ وقت ’سرینڈر‘ ہو تی ہے اُس کا یقینا یہ ’غلامانہ رویہ‘ عام مسلمان بنگالیوں کے پُرجوش مسلم لہو کو تڑپا دیتا ہوگا؟ کوئی دن نہیں جاتا جب بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کو نئی دہلی سے ’ڈکٹیشن‘ نہیں آتی، ایسی ہی ایک ڈکٹیشن حال ہی میں بنگلہ دیشی حکومت کے لئے جاری ہوئی جس میں کہا گیا کہ بنگلہ دیش کے چند حصوں میں 28 ؍اکتوبر2016 کو فرقہ ورانہ پُرتشدد مظاہرین کو گرفتار کرکے اُن کے خلاف سخت تادیبی کاروائیاں کی جائیں؟ واقعہ کیا تھا 28 ؍اکتوبر 2016 کو وسطی ڈھاکہ سے ملحق ضلع ’براہنمان بارہیا‘میں چند مسلمان نوجوانوں کی قیادت میں مندروں کی بے حرمتی ہوئی ‘ مندر میں رکھے ہوئے بتوں کی توڑ پھوڑ کی گئی، جس کی وجہ سے بنگلہ دیشی ہندوؤں کی دل آزاری ہوئی اور یہی نہیں بلکہ یہ کہا گیا کہ بنگلہ دیشی حکومت ہندو اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج بڑی چراغ پا دکھائی دیتی ہیں، اُن کی جانب سے بنگلہ دیشی وزارت ِ خارجہ سے سخت قسم کا پُرزور احتجاج عالمی میڈیا کی خبروں میں پڑھا گیا، بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے بھارت کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی تلقین کرنے کی بجائے کہا گیا بنگلہ دیشی صحافیوں نے واقعہ کی صحیح کوریج کرنے کی بجائے اِسے بلاوجہ اچھالا ،بنگلہ دیش واضح مسلم آبادی کا مسلم ملک‘ جہاں ہر سال دنیا بھر سے آئے کروڑوں مسلمان تبلیغی اجتماع میں نہایت خشوع وخضوع سے شرکت کرتے آرہے ہیں مسلمانوں کا بنگلہ دیش میں یہ اجتماع مکہ میں حج کے عظیم الشان اجتماع سے کئی گنابڑا اجتماع تسلیم کیا گیا ہے، اُن ’ہندو غنڈوں ‘ کے بارے میں حسینہ واجد کی تو کیا مجال ‘ نئی دہلی والوں نے خاموشی اختیار کیوں کی؟ جنہوں نے عالم ِ اسلام کے واحد مقدس ترین مقام ِ اعلیٰ ’خانہ ٗ ِ کعبہ‘ کی سوشل ویب سائڈ پر بے حرمتی کی تھی بنگلہ دیش کی موجودہ بھارت نواز حکومت کے دن اب گنے جاچکے ،بنگلہ دیش میں مسلمان دشمن حسینہ واجد حکومت نے نئی دہلی کی ایماء پر بنگلہ دیش کو مسلمانوں کے مقبول ِ عام اور ایمان افروز قائدین کے لئے 16 ؍دسمبر1971کے بعد ایک بار پھر مقتل میں بدل دیابھارت کو بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی عباد ت گاہوں کا تو بڑادرد رہتا ہے خود بھارت میں تاریخی بابری مسجد ڈھا دی گئی، بابری مسجد کو ڈھانے والے مجرمین بھارت میں اعلیٰ عہدوں پر متمکن ہیں اُنہیں بالکل زیب نہیں دیتا وہ اپنے گریبانوں میں تو جھانکیں اور کمزور پڑوسی ملکوں میں رونما ہونے والی ’یکطرفہ جنونی انتہا پسندانہ ‘ سرگرمیوں کا نوٹس لیتے کی سازشی پالیسیاں بدلیں ‘نئی دہلی کو اب بنگلہ دیش سمیت علاقائی پڑوسی ملکوں کے اندرونی معاملات میں بے جا دخل اندازی کی پالیسیوں سے فی الفور گریز کرنا ہی ہوگاورنہ ’کمزور پڑوسیوں کی شرافت‘کسی بھی وقت بے قابو ہوسکتی ہے مودی جی! ۔
نئی دہلی کی سفارتی جارحیت ۔ مسلم بنگلہ دیش میں مداخلت
Dec 24, 2016