باتیں باب المندب اور شاہراہ ریشم کی

مکرمیٖ! محی الدین بن احمد دین اپنے کالم (نوائے وقت 20 دسمبر 2016ئ) میں لکھتے ہیں: اس آبنائے (باب المندب) سے دائیں طرف سعودی عرب ہے، بائیں طرف نائیجیریا افریقی ملک ہے۔ یمن کی تمام تر طاقت جو ہے، وہ اس تنگ آبی گزر گاہ کی وجہ سے ہے… حوثی باغیوں کو بڑی آسانی سے اسلحہ و دیگر امدادی سامان بحیرہ عرب کے ذریعے عدن بندرگاہ پر مل سکتا ہے‘‘۔ محترم کو غلط فہمی ہوئی۔ باب المندب کے دائیں طرف سعودی عرب نہیں، یمن ہے اور بائیں طرف افریقی ملک نائیجیریا نہیں، جبوتی (سابق فرانسیسی صومالی لینڈ) واقع ہے جبکہ نائیجیریا مغربی افریقہ میں خلیج گنی کے ساحل پر ہے۔ نیز حوثی باغیوں کو اسلحہ وغیرہ اب عدن کی بندرگاہ پر نہیں ملتا کیونکہ گزشتہ سال سے عدن صدر منصور ہادی عبدربہ کی حکومت کے کنٹرول میں ہے، البتہ بُحیرہ احمر (بحیرہ قلزم) کی بندرگاہیں مخا اور حدیدہ ابھی تک حوثیوں اورسابق صدر علی عبداللہ صالح کے دستوں کے قبضے میں ہیں۔محمد اختر چشتی پسروری (سنڈے میگزین 27 نومبر 2016ئ) میں لکھتے ہیں: ’’شاہراہ ریشم چین کے شہر سنکیانگ سے نکل کر کے ٹو پہاڑ کی خوفناک گھاٹیوں کو عبور کر کے درہ خنجراب تک پہنچتی تھی… ابن بطوطہ اور مارکو پولو اسی شاہراہ کے ذریعے چین پہنچے تھے‘‘۔ پہلی بات تو یہ کہ سنکیانگ (موجودہ تلفظ شن جیانگ) یا چینی ترکستان شہر نہیں، چین کا انتہائی مغربی صوبہ ہے۔ نیز شاہراہ ریشم کے ٹو کو ہرگز عبور نہیں کرتی بلکہ کوہستان قراقرم کو درہ خنجراب سے عبور کر کے دریائے ہنزہ و گلگت کے ساتھ ساتھ برصغیر پہنچتی تھی۔ علاوہ ازیں مارکو پولو گلگت کی شاہراہ ریشم سے نہیں بلکہ وسطی ایشیا (سمر قند و بخارا) سے گزرنے والی شاہراہ ریشم کی بڑی شاخ کے راستے چین پہنچا تھا جبکہ ابن بطوطہ نے بحر ہند اور بحیرہ چین جنوبی کے راستے چین کا سفر کیا تھا۔ (محسن فارانی، لاہور۔ فون 37531107)

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...