عظیم فلسفی ارسطو کا قول ہے کہ انفرادی ۔ اجتماعی ۔ اور ریاستی امور میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے تغیرات اور انقلابات پیدا ہوتے ہیں جبکہ بڑا واقعہ بہت کم تبدیلی کا باعث بنتا ہے ارسطو کے اِس قول کی روشنی میں آج ہم اگر اپنے ملک کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اب سب کچھ تبدیل ہونے جا رہا ہے سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں نے عوام کے مینڈیٹ کا جس بھونڈے اور خطر ناک انداز سے استعما ل کیا ہے اُس نے نہ صرف عوام بلکہ ملک کے دیگر مقتدر اداروں کو بھی سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ پاکستان کو لوٹ کا مال اور اپنی سیاسی جاگیر سمجھنے والوں کو اپنے تمام کرتوتوںکا حساب دینا ہوگا اقوامِ عالم کی تاریخ میں یہی وہ منزل ہوتی ہے کہ جب ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے وقت ایک نیا دیباچہ لکھتا ہے ۔ جس میں معاشرے کے تمام طبقات یکجاں ہوکر ’’پیپلز پاور‘‘ بن کرفرسودہ سیاسی نظام سے نجات حاصل کرتے ہیں ۔پانامالیکس کے تناظر میں بہت کچھ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ملکی قانون وآئین کی روشنی میں جاری سیاسی و احتسابی عمل پاکستان کے مستقبل کو تابناک اور شاندار بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ قومی سیاسی منظر پر موجود چھائے ہوئے بلکہ چپٹے ہوئے سیاسی بتوں کی نہ صرف پوجا پاٹ بند ہوگی بلکہ آنے والے وقت میں عوامی طاقت ان بتوں کو پاش پاش کر دے گی ملک میں موجودہ سیاسی اور جمہوری نظام حقیقت میں مخصوص طبقات کے مفادات تحفظات اور ان کی ترقی کے لئے نہایت موزوں ہے اس نظام میں عوام کو صرف لفظی طور پر شامل کیا گیا ہے ورنہ عوام کے مفادات اور اُن کی تعلیم ۔صحت ۔ روزگار اور ترقی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔یہی وجہ سے کہ آج صرف سندھ میں 70لاکھ بچے اور یا پورے ملک میں تقریباً 2.5کروڑ بچے جنہیں اسکولوں میں ہونا چاہیے تھا وہ گلیوں اور سڑکوں پر آوارہ گردی کر رہے ہیں مقتدر اداروں کو زندگی کے ہر شعبے کو فوکس کرنا چاہیے کیونکہ سیاست دانوں حکمرانوں اور حکومت کے تمام اداروں کے سربراہان اور نوکر شاہی کے تمام کل پرزوں کو احتساب کے شکنجے میں جکڑنا ہوگا کیونکہ ان طبقات نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے وطن عزیز کے تمام اداروں کو عوام پر ظلم و ستم اور لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔عوام کا نام لے کر اور عوام کے نام پر ملک کو معاشی اور معاشرتی طور پر کھوکھلا کر دیا ہے آج پاکستان 85ارب ڈالر عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ملک ہے جبکہ بیرونی تجارت تقریباً20ارب ڈالر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے غرض ہر طرح کے حکومتی اورسیاسی نا خدائوں نے جمہوریت اورآئین و قانون کے متوازی جو اپنا عوام دشمن نصاب ملک پر عشروں سے مسلط کیا ہوا ہے یہ بوسیدہ نظام الیکشن 2008سے چھوٹی بڑی کاری ضربوں کی زد میں ہے اور پانامہ لیکس نے اس پر کاری ضرب لگاکر برسوں کے جمود کے بعد ملک میں حقیقی سیاسی ارتقاء کا آغازکیا ہوا ہے ۔اِس استحصالی نظام کے دو وزرا عظم کو پہلی مرتبہ عدالتی کارروائی کے ذریعے گھر بھیجنے کے باوجود آئینی عمل جاری و ساری ہے اور اب ہمارا عدالتی نظام آئین و قانون کے دائرے میں احتسابی عمل کو جاری رکھنے اور نتیجہ خیز بنانے کے ساتھ ساتھ فراہمی انصاف کے عمل کی مانیٹرنگ کی صلاحیت اور قوت بھی حاصل کر چکا ہے اب ملک میں فرینڈ لی کورٹس سے مطلب کا انصاف حاصل کرکے اور بار بار’’ امین و صادق ‘‘کا سر ٹیفکیٹ اور سینے پر فتح مندی کا تمغہ سجانے والے چیخ پڑے ہیں بلاشبہ معزز عدلیہ کا یہ کردار ماضی کے تباہ کن کردار کا کفارہ بھی ہے تاریخ ساز اور نتیجہ خیز بھی سرخاب کے پروں میں ملبوس قومی ملزموں مجرموں کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ انہیں عوام کے مسلسل استحصال کرنے پر قدرت نے پکڑ لیا ہے ٰ اور اب واضح نظر آ رہا ہے الیکشن2018میں پاکستان کی تعمیرو ترقی کے لئے’’ پیپلز پاور‘‘ پاکستان کا نیا دیباچہ تحریر کرے گی۔