محمد علی جناح کی پرُعزم اور با تدبیر قیادت کی وجہ سے 14اگست1947ء کو اقوام عالم میں سب سے بڑی اسلامی مملکت منصۂ شہود پر ابھری۔ قائداعظم عزم صمیم اور قوت ارادی کے ایسے پیکر تھے کہ جسکے سامنے ہندوئوں اور انگریزوں کی ایک نہ چلی۔ سر آغا خان کہتے ہیں کہ ان تمام سیاست دانوں میں جنہیں میں جانتا ہوں۔ کلینو، لائیڈجارج، چرچل، کرزن، مسولینی اورمہاتما گاندھی ان ساروں کے مقابلے میں قائداعظم کردار کی مضبوطی کے لحاظ سے عظیم ہیں۔ محمد علی جناح ’’قائداعظم‘‘ کے محبوب لقب سے پکارے گئے۔ سیاسی زندگی کا آغاز کانگرس سے کیا اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر بھی کہلائے مگر جب ہندو قیادت کے متعصبانہ ذہن نے ان پر ہندو عزائم کو واضح کر دیا تو انہوں نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کرتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور اپنی مساعی جمیلہ سے ایک طویل اور تھکا دینے والی آئینی جنگ کے صلہ میں پاکستان حاصل کر لیا۔محمد علی جناح قیام پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل بنے۔کارواں منزل پر پہنچ چکا تھا لیکن میر کارواں تھک کر چور چور ہو گیا اور 11 ستمبر 1948ء کو اپنے معبود حقیقی سے جا ملا۔ قائداعظم کی سیاسی زندگی کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ ایک بار بھی جیل نہ گئے۔ قائداعظم عزم و عمل، دیانت، خطابت، اور خود داری کا مرقع تھے۔ ان کے اندر وہ تینوں خوبیاں موجود تھیں جو میر کارواں کا رخت سفر کہلاتی ہیں۔ انکے کمزور اور نحیف جسم میں ہر دم، دم گرم اور جان بے تاب کا لاوا ابلتا رہتا تھا۔ محمد علی جناح کی شخصیت اور کردار کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعات سے پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔عام طور پر سیاستدان، سیاست اور حکمت عملی میں اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے جائز و ناجائز ذرائع کی تمیز نہیں کرتے لیکن قائداعظم کی افتاد طبع بالکل مختلف تھی، وہ دیانت داری اور راست بازی پر یقین رکھتے تھے۔ کبھی کبھار شیریں طنز و مزاح کے نشتر بھی چلاتے تھے۔ ایک دفعہ گاندھی نے ان سے کہا:۔ ’’آپ نے مسلمانوں پر مسمریزم کر دیا ہے‘‘۔ جناح نے برجستہ جواب دیا:۔ ’’جی اور آپ نے ہندئووں پر ہپناٹزم‘‘۔ ایک مرتبہ دونوں رہنما اکٹھے اخباری نمائندوں اور فوٹو گرافروں کے ہجوم کے سامنے آئے۔ گاندھی نے جناح سے پوچھا ’’انہیں دیکھ کر آپ دل میں خوش تو ضرور ہوئے ہونگے؟‘‘ جناح بولے: ’’جی میں خوش تو ضرور ہوا مگر آپ سے کم‘‘۔ان دونوں لیڈروں کے مزاج اور انداز فکر ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف رہے۔ یہ اختلاف مزاج کبھی کبھی ان کی آپس میں فقرے بازی میں بھی ظاہر ہو جاتا تھا۔ایک بار جناح نے گاندھی سے اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ ’’تم میدان سیاست میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہو کہ لوگ کس بات سے خوش ہونگے۔ پھر اسکے مطابق تم اقدام کرتے ہو مگر میرا نداز بالکل اسکے بر عکس ہے، میں پہلے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ کیا بات صحیح اور مناسب ہو گی اور پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہوں۔ بالآخر لوگ میری بات پر لبیک کہتے ہیں اور مخالفت رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے‘‘۔ سیاست کے بارے میں قائداعظم نے فرمایا: ’’سیاست میں جذبات کی حماقت کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ سیاست شطرنج کا کھیل ہے۔ برائیوں کو آنسوئوں سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ جذبات کی ٹونٹی کھولنا آسان مگر اسے بند کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جذبات کے طوفان میں معقول پالیسی بہہ جاتی ہے۔ مشکل موقعوں پر دماغ ٹھنڈا اور آنکھیں خشک رکھنی پڑتی ہیں تاکہ حالات صحیح نظر آئیں اور ان سے صحیح نتیجہ اخذ کیا جا سکے‘‘۔ کراچی کے ایک پارسی مئیر جمشید نوشیرواں نے قائداعظم کیلئے کہا۔
’’انکی یاد بڑی دلکش ہے، انہیں اپنے اوپر پورا کنٹرول تھا۔ جذبات کا اظہار بہت کم کیا کرتے تھے۔ وہ کم آمیز اور باوقار تھے۔ انکی زندگی تنہا تھی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جناح بڑے انسان دوست تھے۔ ایک دن مجھ سے کہا کہ میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان کے مسلمان اقلیتوں سے رواداری برتیں‘‘۔ میں نے دو موقعوں پر انہیں روتے دیکھا۔ تقیسم ہند کے بعد انکے ہمراہ مہاجر کیمپ دیکھنے گئے۔ انکی مصیبت دیکھ کر جناح رو پڑے۔ میں نے انکے رخساروں پر آنسو چمکتے دیکھے۔ میں نے پہلی مرتبہ انکے آنسو 1928ء میں دیکھے۔ کلکتہ کانفرنس میں انہوں نے بڑی خوبی اور قابلیت سے مسلمانوں کی وکالت کی مگر انکے مطالبات رد کر دیئے گئے۔ ایک شخص نے مخالفت میں کہا کہ انہیں مسلمانوں کی طرف سے بولنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ وہ ان کے نمائندے نہیں۔ جناح کو اس میں بڑی سبکی محسوس ہوئی اور اپنے ہوٹل واپس چلے گئے۔ دوسرے دن صبح آٹھ بجے کلکتہ کیلئے روانہ ہوئے تو فسٹ کلاس کے ڈبے کے دروازے پر کھڑے تھے۔ انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور بولے۔ ’’جمشید یہ افتراق کا آغاز ہے‘‘…اور میں نے دیکھا ان کی آنکھیں پرنم تھیں۔
ہیکٹر بولائیتھو اپنی کتاب ’’جناح دا فائونڈر آف پاکستان‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’سیاسی نا کامی اور ذاتی صدمے کے باوجود ان کی ذہنی صلاحتیوں اور ظاہری ٹپ ٹاپ میں کوئی فرق نہ آیا۔ لارڈ جووٹ جو چھ سال برطانیہ کے وزیر قانون رہے کے الفاظ ہیں۔ ’’جناح قانونی معاملات میں بڑے ہوشیار تھے اور پریوی کونسل میںاپنے مقدمات کی پیروی میں وہ بڑی فہم و فراست کا ثبوت دیتے تھے۔ انکی ان صلاحیتوں کے باعث ہم سب ان کا بڑا احترام کرتے تھے‘‘۔ جناح کی شخصیت پر مونیٹگو نے سب سے گہری نظر ڈالی وہ کہتا ہے کہ ’’سب لیڈروں کے ساتھ جناح مجھ سے ملے۔ وہ ابھی جواں ہیںاور آداب محفل سے پوری طرح واقف ہیں۔ ان سے ملنے والا چہرے مہرے سے بہت متاثر ہوتا ہے۔ وہ استدلال اور فن بحث میں طاق ہیں۔ انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ملک کے سیاسی مستقبل کے متعلق ان کا منصوبہ کلیتاً منظور کیا جائے۔ میں جناح کی بحث سن کر بہت تھک گیا تھا اور میں نے ان کو ڈرانے کی کوشش کی، بحث میں الجھانے کی کوشش کی مگر خود الجھ کر رہ گیا۔ اس میں شک نہیں کہ جناح نہایت قابل شخص ہیں‘‘۔
گاندھی نے کہا کہ میں یہ یقین سے کہتا ہوں کہ کوئی طاقت مسٹر جناح کو نہیں خرید سکتی۔ بی جے پی کے لیڈر جسونت سنگھ نے بھی اپنی کتاب میں محمد علی جناح کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ وہ صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے رہنما تھے۔
جن دنوں جناح لندن میں وکالت کرتے تھے ان کے دفتر کے متصل ایک انگریز وکیل مسٹر ٹی ڈبلیو ریمزکا دفتر تھا۔ یہ صاحب بھی وہاں وکالت کرتے ہیں۔ انہوں نے جناح کی لندن سے مراجعت کا حال یوں بیان کیا: مجھے وہ دن یاد ہے جب جناح نے میرے دفتر آ کر مجھے بتایا کہ وہ وطن واپس جا رہے ہیں۔ انکے خوبصورت اور شاندار فرنیچر پر بہت سے وکیلوں کی نظر تھی، وہ اسے خریدنا چاہتے تھے۔ (جاری)
قائد اعظم محمد علی جناح …دنیا کی نظر میں
Dec 24, 2017