ایسے نہیں دلاتے احساسِ کمتری کہ لبریز ہو نہ جائیں پیمانے زندگی کے
پہلے بھی تم دمکتے اور بعد میں بھی تم ہی کوئی حساب کرتا گر‘ مری ہر خوشی کے
رنگین شوخیاں تھیں پنہاں سفیدیوں میں گر‘ تم ورق الٹتے اس میری سادگی کے
اس دن بھی میں نے آنچل اوڑھا تھا یاد کیجئے جس دن اڑے نمونے خاموشی بے بسی کے
ساگر کی پیاس لیکن دو بوند پہ قناعت نظارے خوب کرتے تشنہ لبی دبی کے
لو آگئی ہے پھر سے یہ میری دسترس میں کب تھامتی ہے دامن تنہائی ہر کسی کے