صیہونیت اور اسکے عزائم کو پہچانیں!

امریکی صدر ٹرمپ کے اس اعلان نے کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرتے ہیں، پاکستان سمیت اسلامی دینا بلکہ تمام دنیا میں ایک سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ در اصل یہ امریکہ کی جانب سے کوئی نیا مطالبہ یا اعلان نہیں ہے۔ امریکہ میں 1995 میں ایک قانون " Jerusalem Embassy Act of 1995" پاس کیا گیا تھا جس میں امریکی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرے اور امریکی سفارتخانے کو یروشلم میں منتقل کرے۔ اس قانون میں امریکی صدر کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ چھ ماہ کے لیے اس منتقلی مئوخر کر سکتے ہے اور بعد میں آنے والے امریکی صدور ہر چھ ماہ بعد اس منتقلی کو مئوخر کرتے آئے ہیں۔ یعنی امریکی صدر ٹرمپ نے دراصل کوئی نیا قانون بنانے کا اعلان نہیں کیا بلکہ انکے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے سے موجود قانون کو مئوخر کرنے کے لیے اپنا صدارتی اختیار استعمال نہیں کریں گے۔
ہم یہودیوں کو فلسطینی اور تمام دنیا کے مسلمانوں کا دشمن گردانتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں اور دیگر تمام مذاہب کے اصل دشمن اور تمام اسلام دشمن قوتوں کی ڈوریاں دراصل صیہونیوں یعنی Zionists کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ انکے میڈیا ااور پراپیگنڈہ کا کمال ہے کہ مسلمان اپنے اصل دشمن کو ابتک پوری طرح پہچان ہی نہیں سکے ، اسکے خلاف لڑنے کا سوال تواسے مکمل طور پر پہچاننے کے بعد پیدا ہو گا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ صیہوانیت دراصل بہت سی خفیہ تنظیموں جیسے ’’ الیومیناٹی‘‘ اور ’’ فری میسنز‘‘ وغیرہ کے ذریعے تمام دنیا کو مختلف غیر محسوس ذرائع سے کنٹرول کررہی ہے۔ یہاں تک کہ اصل یہودی اور امریکہ کے کرسچین بھی دراصل اس تنظیم کے آلہ کار ( ایک طرح سے غلام) ہیں۔
سب سے پہلے ’’یہودیت‘‘( Judaism) اور ’’ صیہونیت ‘‘ ( Zionism) کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہودیت ایک مذہب اور صیہونیت ایک اتنہا پسند سیاسی اور ریاستی ایجنڈہ ہے۔ مختصر اور آسان الفاظ میں بنی اسرائیل کے افراد جو یہودیت پر یقین رکھتے ہیں اور تورات کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر نا چاہتے ہیں وہ یہودی ہیں۔ انکا اعتقاد ہے کہ ان پر جو مشکلات آتی ہیں وہ خدا کی جانب سے امتحان ہے اور یہ کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی ریاستی یا سیاسی ایجنڈا اختیار کرنا تورات کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسی لیے وہ یروشلم پر قبضہ یا اسرائیل کے زبردستی قیام کے بھی مخالف ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تورات کی تعلیمات کے مطابق انکے ’’مسیحا ‘‘ کے آنے اور MESSIANIC ERA کے آغاز سے قبل یہویوں کے لیے اپنی الگ ریاست ( اسرائیل) کا قیام انکی اصل مذہبی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسی لیے خود یہودیوں میں Zionism کے خلاف بھی کچھ تحاریک چل رہی ہیں( جیسے کہ "Neturei Karta")۔
لفظ Zionism پہلی مرتبہ 1890 میں Nathan Birnbaum نام کے یہودی نے ایجاد کیا۔ اسکے بعد 1896 میں ’’Theodor Herzl‘‘ نامی ایک شخص ، جو نسل سے تویہودی تھا لیکن سیکولر یعنی لا دین تھا، نے اس نظریے پر باقاعدہ عملی کام کا آغازکیا۔ اوائل میں اسے کوئی خاطرخواہ پزیرائی نہیں ملی ۔ اسکے بعد اس نے پہلے یورپ کے یہودیوں پر مظالم اور پھر ’’ مبینہ ہالوکاسٹ‘‘ کو اپنی تحریک کی بنیاد بنایا۔ ہالوکاسٹ ایک حقیقت ہے یا افسانہ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مغربی دنیا ویسے تو لاکھوں برس قبل پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات فخر سے کرتی ہے لیکن ہالوکاسٹ کے بارے میں تحقیق کرنا تو دور کی بات ہے اس بارے میں بات کرنا بھی منع ہے۔اور اس بارے میں تحقیق کرنے کی بات کرنے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ یہ بات کرنے والا ہالوکاسٹ سے انکا ر کر رہا ہے اور ان ممالک میں ایسا کرنے کی سخت سزا کے قوانین موجود ہیں ۔( یہاں آ کر ان ممالک کا ’’ آزادیٔ رائے‘‘ کا فلسفہ فوت ہو جاتا ہے)۔ خیر اسکے بعد انہوں نے یہودیوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے انکی عبرانی کتب میں موجود نظریے '' The Return to Zion" کو بنیاد بنا لیا۔ اسے اتنی کامیابی ملی کی اگلے ہی برس یعنی 1897 میں بہت سے انتہا پسند یہودی اسکے ساتھ مل گئے اور انہوں نے باقاعدہ Zionist (صیہونیت) تحریک کا آغاز کر دیا ۔ صیہونیت کی بنیاد یہودی مذہب کے بجائے اس بات پر ہے کہ تمام دنیا نے ان پر بے شمار ظلم کیے ہیں اور اب انکا حق ہے کہ وہ تمام دنیا سے اپنے اوپر کیے جانے والے ’’ مبینہ مظالم‘‘ کا بدلہ لیں ۔ اسکے لیے تورات کی تعلیمات کے برخلاف انکا نظریہ ہے کہ اپنی ریاست ( گریٹر اسرائیل) کے قیام کے لیے کسی بھی علاقے پر زبردستی قبضہ اور قتل و غارت کرنا انکا حق ہے کیونکہ وہ تمام مذاہب اور تمام نسلوں سے اعلیٰ اور افضل ہیں۔ اس انتہا پسند ریاستی ایجنڈے کے بہت سے اتحادی ہیں جن میں کرسچن ( عیسائی ) بھی شامل ہیں۔ انہیں ( christian zionist) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ بظاہر تو عیسائی ہیں لیکن اسرائیل (صیہونیت) کی حمایت میں یہ لوگ یہودیوں سے بھی آگے ہیں۔
مختصر یہ کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد فلسطین کا علاقہ (بشمول یروشلم) برطانیہ کے تسلط میں چلا گیا۔ 1896 سے 1948 کے دوران ہزاروں لاکھوں یہودیوں نے صیہوانی تحریک کے زیر اثر تمام دنیا سے اس علاقے کا رخ کیا جس کے بعد ان نو آبادکار یہودیوں اور وہاں کے باسی مسلمانوں (فلسطینیوں) میں اختلافات اور لڑائی بڑھتی گئی۔ بالا آخر اقوام متحدہ نے 1947 میں فلسطین اور اسرائیل کی تقسیم کا امن منصوبہ پیش کیا جس میں یروشلم کو ایک خاص اہمیت دی ، اور کہا گیا ا کہ اس شہر کا کنٹرول اقوام متحدہ کے پاس ہوگا کیونکہ اس شہر کی اہمیت تینوں بڑے مذاہب ( اسلام، یہودیت اور عیسائی) کے لیے بہت زیادہ ہے۔ لیکن اگلے ہی برس 1948 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد صیہونی طاقتوں نے اس شہر کے مغربی علاقے پر قبضہ کر کے اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا ۔ بعد ازاں 1967 میں اس مقدس شہرکے مشرقی حصے پر بھی( شام، مصر اور اردن کو شکست دینے کے بعد) صیہونی طاقتوں کا قبضہ ہو گیا۔ 1980 میں اسرائیل میں ’’ قانون یروشلم‘‘ پاس کیا گیا جس کے مطابق تمام یروشلم کو اسرائیل کی ملکیت اور دارلحکومت قرار دے دیا گیا۔ اسکے جواب میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے اسی برس اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا ( بذریعہ قرار داد نمبر 478)۔ امریکہ کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک مکمل یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم نہیں کرتا۔ روس کا کہنا ہے کہ مغربی یروشلم اسرائیل کا جبکہ مشرقی یروشلم مستقبل میں فلسطین کا دارلحکومت ہو گا۔ مشرقی یروشلم میں تقریباََ چار لاکھ سے زیادہ فلسطینی مسلمان صدیوں سے بستے ہیں ۔ غاضبانہ قبضے کے بعد اسرائیل نے اس شہر کو اپنا حصہ تو قرار د ے دیا ہے لیکن کئی نسلوں سے آباد ان فلسطینیوں کو اسرائیل کا شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ یہ لوگ سفر کے لیے اردن کا عارضی پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ یعنی در حقیقت یہ مظلوم لوگ اس وقت کسی بھی ملک کے مکمل شہری نہیں ہیں۔
تما م اسلامی دنیا کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اصل دشمن اور اسکے ارادوں کو مکمل طور پر پہچانیں، اور ملکر اسکے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔ اسکے بغیر انہیں اس شاطر دشمن کے خلاف کامیابی نہیں مل سکتی۔

ای پیپر دی نیشن