احمد جمال نظامی
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ہفتہ رفتہ کے دوران 5ہزار سے زائد فیس لینے والے سکولوں کی فیسوں میں کمی کے احکامات جاری کرتے ہوئے موسم گرما کے دوران تین ماہ کی تعطیلات کی فیسوں کو بھی سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کے والدین کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں ایف آئی اے کی طرف سے ایسے سکولوں پر چھاپے مارے گئے اور ان کا ریکارڈ قبضے میںلیا گیا۔ فیصل آباد میں ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے دو بڑے پرائیویٹ سکولوں کے دفاتر پر راتوں رات چھاپے مار کر ان کا ریکارڈ قبضے میں لیا گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس حکم کو عوامی حلقوں کی طرف سے بطور خاص پذیرائی دی گئی ہے لیکن دوسری طرف سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ایف آئی اے کی ایک دو کارروائیوں کے بعد عملی طور پر عدالت عظمیٰ کے اس حکم پر عملدرآمد نظر نہیں آ رہا جس کے باعث بچوں کے والدین میں ایک مرتبہ پھر تشویش کی لہر پائی جاتی ہے تاہم اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ وطن عزیز میں گزشتہ کئی سالوں سے تعلیم نہ صرف ایک منافع بخش کاروبار کی حیثیت حاصل کر چکی ہے بلکہ شعبہ تعلیم کو زر کے متلاشی حضرات نے بری طرح تباہ و برباد بھی کر کے رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دوسرا بڑا تعلیمی ادارہ کسی نہ کسی بڑے سیاست دان کے ذاتی کاروبار کے طور پر سامنے آتا ہے یا پھر بڑے سیاست دانوں کے قریبی عزیز ایسے تعلیمی اداروں کے روح رواں ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے تین عشروں پر محیط عوامی سطح پر جس سیاسی جدوجہد کو شروع کیا اس کی بنیاد عمران خان نے انصاف کے نعرے پر ڈالی اور انصاف کی ہر پاکستانی کو بلاتفریق منتقلی کے علاوہ عمران خان ملک میں ایک نصاب کے تحت تعلیمی نظام کو فروغ دینے کے دعوے کرتے رہے۔ اس وقت عمران خان ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں اور اب جبکہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے بھی پرائیویٹ سکولز کے خلاف ایک بڑا فیصلہ سامنے آ چکا ہے تو عمران خان ماضی میں متواتر کئی سالوں تک اپنے بلند کئے ہوئے وعدے اور نعرے کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ درحقیقت ہمارے ملک میں خود وزیراعظم کے مطابق دو نہیں بلکہ تین قسم کا نصاب تعلیم رائج ہے۔ اس حقیقت کو یقینی طور پر عوام تسلیم کرتی ہے لیکن اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے وزیراعظم کو عملی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں صورت حال یہ ہے کہ تعلیم کی تجارت کے نام پر بعض بڑے گروپ والدین کی جیبوں پر ماہانہ ہزاروں روپے کے حساب سے بوجھ بنے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر درمیانے درجے کے پرائیویٹ سکولز ہیں جن کی فیسیں بھی بڑے پرائیویٹ سکولز سے تو خاصی کم ہے لیکن انہوں نے بھی اپنی فیسوں میں بار بار اور بے ہنگم اضافہ کرنا شروع کر رکھا ہے۔ اس کے مقابلے میں سرکاری سکولوں کے نام پر ایک نصاب اور نظام تعلیم رائج ہے۔ ہمارے سرکاری سکولوں کے بارے میں آج بھی عوامی شکایات بدرجہ اتم موجود رہتی ہیں۔ پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد میں بھی آج کے اس ترقی یافتہ دور کے اندر بھی گردونواح کے علاقوں کے حوالے سے سرکاری سکولوں پر عوامی شکایات اور اعتراضات جابجا سامنے آتے رہتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارے ملک میں حکومت سرکاری سکولوں کے ذریعے عوام اور قوم کے مستقبل کے معماروں کو وہ معیار تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہے جس کا تقاضا جدید حالات کرتے ہیں۔ اس صورت حال کا فائدہ چند مٹھی بھر پرائیویٹ سکولز اشرافیہ اٹھا رہی ہے اور ان کی طرف سے جب جی چاہتا ہے کسی نہ کسی ایشو کو جواز بنا کر اپنی فیسوں میں بھاری بھر کم اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کو اس تلخ حقیقت کا علم ہونا چاہیے کہ ہمارے ملک میں بڑے پرائیویٹ سکولز کے مالکان ایسی اشرافیہ ہیں کہ ان کے خلاف عدالتی احکامات اور حکومتی احکامات کے باوجود متعلقہ محکمے اپنی کارروائیاں عمل میں نہیں لا پاتے اور محکمہ تعلیم سمیت تمام متعلقہ اداروں کی کارروائیاں صرف اور صرف گلی محلوں کے چند ایک پرائیویٹ سکولز تک نمائشی طور پر محدود رہتی ہیں اور اکثر متعلقہ محکمے چھوٹے پرائیویٹ سکولز کے خلاف بھی اس لئے کارروائی نہیں کر پاتے کہ اب پرائیویٹ سکولز کے مالکان نے اپنی مختلف تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں جن تنظیموں کے ذریعے وہ اپنے اپنے اضلاع میں ڈپٹی کمشنر، ڈویژنل کمشنر یا پھر کسی نہ کسی وزیر مشیر سے رابطہ کرتے ہیں اور انہیں اپنے چند گھسے پٹے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے احتجاج کی دھمکی دے کر حکومت یا عدالت کے ہر حکم نامے کو عملاً صفر کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اس صورت حال نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک جہاں آج بھی ہمارے ملک کی اکثریت تعلیم کے زیور سے محروم ہے جبکہ ہم اپنے ملک میں شرح تعلیم کا حساب صرف اور صرف اس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ جوشخص اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتا ہے وہ پڑھے لکھے افرادمیں شامل ہوتاہے۔ اس بنیاد پر اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک میں آج بھی شرح خواندگی کی شرح خط اور دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے اور ایک اندازے کے مطابق وطن عزیز میں جیسے جیسے مہنگائی کی شرح میں اضافہ جاری ہے۔ ملک میں لاقانونیت اور بیروزگاری کے مسائل بڑھنے کے باعث غریب عوام کی ایک بڑی اکثریت اپنے بچوں کو سکول بھیجنے سے قاصر ہو رہی ہے۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ حکم کو جواز بناتے ہوئے ملک میں ایک نظام تعلیم اور ایک نصاب رائج کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے شروع کرے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ جب ایک امیر آدمی کا بچہ اعلیٰ اور معیاری نصاب میں تعلیم حاصل کرتاہے اور غریب کا بچہ سرکاری سکولوں میں گھسے پٹے نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کرتا ہے تو دونوں کی ترقی میں بھی واضح فرق سامنے آتا ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ ہمارے ملک کے وزیراعظم کو علم ہے کہ غیرمساوی وسائل اور غیرمساوی نظام تعلیم کے باعث غریب کا بچہ غریب اور غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے لیکن وزیراعظم کو عوام کی اس گزارش پر بھی کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں عوام کے اس مطالبے پر بھی لبیک کہنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں کئی طرح کے چلتے ہوئے نظام اور نصاب تعلیم کے خاتمے کے لئے حکومت کو اپنا ہرممکن کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس وقت عمران خان ملک کے وزیراعظم ہیں تو ان کے پاس اس سے سنہری اور اچھا موقع اور کب آئے گا کہ وہ عوام کے جس درد کا احساس کرتے رہے اور عوام کو اس کے جس درد کا احساس دلاتے ہوئے اس کے خاتمے کی امید دلاتے رہے، وعدہ کرتے رہے اور دعوے کرتے رہے اس کو عملی جامہ پہنایا جائے اور ملک میں حقیقی اور بنیادی ترقی کی بنیاد رکھ دی جائے۔ وزیراعظم کو اپنے اس وعدے پر پورا اترنا ہو گا۔ پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے اسی مقصد کے لئے قائم کیا تھا کہ پاک سرزمین پاکستان میں سب کو مساوی حقوق، وسائل اور مواقع دستیاب آ سکیں گے جس کے آگے برصغیر میں انگریز اور ہندو گٹھ جوڑ کی صورت میں بند باندھا گیا تھا۔وزیراعظم فوری طور پر اقدامات اٹھائیں اور جن بڑے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے خلاف عدالت عظمیٰ نے حکم جاری ہے اس حکم نامے پر بھی فوری طور پر عمل درآمد شروع کیا جائے وگرنہ موجودہ اور سابقہ حکومتوں کو عوام ایک ہی پیمانے میں گردانے گے۔