کچھ وقت ایک ماورائی دنیا میں

ایک فرانسیسی کہا وت کے مطابق ، جو شخص بہت سفر کرتا ہے وہ بہت جھو ٹ بولتا ہے۔ ہم اس میں وکیلوں ، صحافیوں، شکاریوں ، سابق فوجیوں اور سیاست دانوں کو بھی شامل کریں گے اس لیے کہ اِن لوگوں کے پاس کہانیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں جو یہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سناتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ایک ہی فرد کو کتنی باراپنے ’’قیمتی تجربات و مشاہدات‘‘ سے بہرہ مند کرچکے ہیں۔ سفر ہم بھی بہت کرتے ہیں اور ان کی رُوداد لکھتے وقت ہم سے بھی (سہواً) دروغ گوئی سرزدہوجاتی ہے جو اکثر واقعات کے تسلسل اور لوگوں کے ناموں کے ضمن میں ہوتی ہے۔ کچھ مبالغہ آرائی بھی ہوتی ہے کیوں کہ ع بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ ویت نام کے سفر کے آخری مرحلے میں ہمیں اور ہمارے نوجوان پوتے فریس قریشی کو خلیج ہالانگ (Ha Long Bay)کی سیرپر جانا تھا جس میں ایک رات ایک چھوٹے جہاز (Ferry) اور ایک رات جنریرے میں قیام بھی شامل تھا۔ جہاز پر سیٹیں پہلے سے مخصوص تھیں۔ گائڈ نے ہمیں صبح آٹھ بجے ہوٹل سے ’’چُک ‘‘لیا۔ پھر ہانوئی شہر کے دوسرے ہوٹلوں کے سیاح شامل ہوتے رہے اور یوں ہماری بس بیس کے گروپ کو لے کر تقریباً دس بجے بندر گاہ پہنچی۔ راستے میں گائڈ دلچسپ باتوں سے اپنے ’’ریوڑ‘‘ کا جی بہلاتا رہا۔ پہلے اس نے خلیج ہالانگ کے بارے میں معلومات کے دریا بہائے۔ پھر ایک ایک سے اس کے کھانے کی تر جیحات معلوم کیںجواُسے ہوٹل میں لکھوانی تھیں۔ کوئی کہتا ’’Vegetarian‘‘(سبزی خور )اور کوئی کہتا ’’Non-vegetarian‘‘(گوشت خور) ۔جب میری باری آئی تو میں نے مزاحاً کہا ’’Fruitarian‘‘(پھل خور)۔وہ بھلا کہاں چُو کنے والا تھا۔بولا ’’ پھرتوآپ فاقے کریں۔‘‘ گوشت خوروں سے وہ چکن ، مٹن کے علاوہ ضمنی سوال بھی کرتا ’’کتاّ ، بلی، کوبرا؟‘‘ ایک صاحب نے تو کمال ہی کردیا بولے’’Even no egg ‘‘(انڈا بھی نہیں) ۔ گائڈ کا کہنا تھا کہ ایک زمانے میں ویت نامیوں کی زندگی میں بیوی سے زیادہ اہمیت سائیکل کو حاصل تھی۔ عورت ، مرد،بچہ ،بوڑھا سب سائکلیں استعمال کرتے تھے لیکن اب انسانوں سے زیادہ بائیکس (Bikes) ہیں اور جب سے یہ ہمارے کلچر میں داخل ہوئی ہیں ، ہمارے یہاں ’’پیٹوئوں ‘‘ کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہاہے۔ ہمارے بدنوں میںسُستی اور مزاجوں میں تلخی در آئی ہے۔ اب لوگ کھاتے زیادہ ہیں، کام کم کرتے ہیں۔ یہ اس کی کسرِنفسی تھی اس لیے کہ ہم نے ’’بچشمۂ خود‘‘دیکھا کہ ویت نامی بہت محنتی اور سخت کوش ہیں۔ باتیں اور نوک جھوک جاری تھی کہ بندرگاہ سے کچھ پہلے بس گاڑیوں کے اڈے کے پاس رکی۔ یہاں ساتھ بنی ایک بستی میں مخصوص ڈیزائن کے دو منزلہ مکا نات دور تک پھیلے ہوئے بہت بھلے لگ رہے تھے۔ مکانوں کے نیچے دکانیں تھیں۔ پہاڑ کے دامن میں واقع یہ اک چھوٹا سا پر سکون قصبہ تھا جس کی آبادی پانچ ہزار تھی لیکن یہاں دو چرچ نظر آرہے تھے۔ بتایا گیا کہ کئی اسکول، ایک کالج اور ایک اسپتال بھی ہے۔ فیری کے آنے میں دیر تھی لہٰذا سیاحوں نے دکانوں سے خوب خریداری کی ۔چیزوں کی قیمتیں شہر کے مقابلے میں نسبتاََ کم تھیںجو ایک خلاف معمول بات تھی ورنہ دور دراز علاقوں میں چیز کے ساتھ ساتھ عموماً ضرورت کی قیمت بھی گاہک سے وصول کی جاتی ہے۔ اس قصبے کے سیدھے سادے ، بے ریا، پُر خلوص، محبت آمیز اور معصومانہ طرز حیات نے بے حد متاثر کیا ۔ تمام کاروبار عورتیں کررہی تھیں اور مردوں کا نام و نشان نہ تھا۔ ایک سے میںنے پوچھا ’’آپ کے مرد کہاں ہیں؟ ‘‘اس نے بتا یا ’’قصبے کے تمام مرد صبح نوکری پر شہر چلے جاتے ہیں جو یہاں سے سو کلو میٹر دورہے۔ دن میں پورے علاقے میںبمشکل بیس مرد ہوتے ہوں گے ۔ ‘‘ میں نے حیران ہوکر سوال ’’کیا عورتوں کو خوف محسوس نہیں ہوتا؟‘‘ وہ بولی ’’خوف کیسا، ہم سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں اور اکثر تو آپس میں رشتے دار بھی ہیں اس لیے کہ ہماری آپس میں شادیاں بھی یہیں ہوتی ہیں۔‘‘میر اتجسس ماندنہیں پڑرہا تھا۔ میں نے مزید ’’تفتیش‘‘ کی ’’فرض کریں کسی گاہک سے جھگڑا ہوجائے ، وہ کوئی چھیڑ چھاڑ کرے یا کوئی چوری چکاری کی واردات ہوجائے تو عورت بچاری کیا کرے گی؟‘‘ اس نے کہا ’’ہم امن پسند لوگ ہیں۔ آج تک ایسی نوبت نہیں آئی لیکن اگر کبھی آئی تو ہم سب عورتیں مل کراُس کا مقابلہ کریں گی اور ہم ’’بلیک بیلٹ ہولڈ رز‘‘ بھی ہیں ۔‘‘ اس طرح اس نے ہمیں رسان سے یہ دھمکی دے دی کہ کسی ایسی ویسی حرکت کا خیال بھی دل میں نہ لانا ۔ اس نے مزید بتا یا کہ ہمارے یہاں تو کوئی پولیس چوکی بھی نہیں۔ ہاں ، ایک میونسپلٹی ہے جو ہماری صحت و صفائی کا خیال رکھتی ہے۔ میونسپلٹی کی ملازمت میں بھی زیادہ تر عورتیں ہیں۔ شام چھ بجے کے بعد مرد کا م سے لوٹ کر دکانیں اور عورتیں گھر سنبھال لیتی ہیں۔ جس وقت وہ سادہ لوح عورت ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ہمیں اپنے اس ’’ماورائی‘‘قصبے کے بارے میں بتا رہی تھی، ہمارے ذہن میں علامہ اقبال کی نظم’’ایک آرزو‘‘ گونج رہی تھی جس کے چند اشعار یہاں نقل کیئے بغیر چارہ نہیں:
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو!
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہوا
آزاد فکر سے ہوں، عُزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کا نٹا نکل گیا ہو
ہو دل فریب ایسا کہسا ر کا نظارہ
پانی بھی موج بنکر اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو
پچھلے پہر کی کوئل ، وہ صبح کی مؤ ذّن
میں اس کا ہمنوا ہوں، وہ میری ہمنوا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدادراہو
ایک تصوراتی دنیا کا نقشہ خیالوں میں بسائے ہم دوبارہ بس میں بیٹھے اور بندر گاہ کی طرف بڑھے ۔ بندرگاہ چھوٹی لیکن خوبصورت تھی۔ سیاحوں کا بڑا ہجوم تھا جس میں ہر ملک کے لوگ شامل تھے خصوصاً یورپی زیادہ تھے جو سیر تفریح کے دلدادہ بلکہ ’’پردادا‘‘ ہوتے ہیں۔ ساحل کے کچھ آگے ہی سے سمندر میں اونچی اونچی پہاڑیاں (Karts) شروع ہوگئیں۔ کہا جاتا ہے کہ گرم مرطوب آب و ہواکے باعث یہ چٹانیں یا پہاڑیاں ، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، دوکروڑ سال کی ماحولیاتی تبدیلوں کے زیر اثر نمودار ہوئی ہیں۔ جیسے ہی ہماری فیری آئی سیاح قطار میں لگ کر چڑھنے لگے۔ دھوپ چمک دار تھی لیکن ٹھنڈی، تیزاور مرطوب ہوائوں نے موسم میں خنکی پیدا کردی تھی لہٰذا ہم دونوں عرشے ہی پر ٹھہر گئے بلکہ ایک لمبی سی بینچ پر بیٹھ گئے۔ جیسے ہی فیری چلی، تمام سیاحوں نے اپنے موبائل نکال کر دل کش ماحول کی تصویرکشی شروع کردی۔ آبی پرندے لوگوں کے سروں ، کندھوں اور گھٹنوں پر اس طرح آآکر بیٹھ رہے تھے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ اتنے انسان دوست تو ٹریفلگر اسکوائر (لندن)کے کبوتر بھی نہیں تھے جنھیں اب وہاں سے بے دخل کردیا گیا ہے اس لیے کہ ان کی بِیڈکُھرچنے پر لندن میٹروپولیٹن کا رپوریشن کا اچھا خاصا بجٹ خرچ ہوجاتا تھاجو گورے لارڈمئیر کو گوارا نہ تھا۔ کسی زمانے میں ٹریفلگر اسکوائر لندن کا’’ Love Spot‘‘(جائے محبت ) تصور کیا جا تا تھا لیکن جب سے کبوتر اُڑے ’’کبوتریوں‘‘ نے بھی وہاں آنا چھوڑ دیا۔

ای پیپر دی نیشن