لاہور: منفرد لب و لہجے کے شاعر اور ہری پور کے بے مثل نغمہ گر قتیل شفائی کی آج 99 ویں سالگرہ ہے۔ جذبات کی خوبصورت ترجمانی ان کی پہچان بنی، 2001 میں بزمِ یاراں چھوڑ کر راہی عدم ہوئے۔
قتیل شفائی 1919ء میں پیدا ہوئے، فنی سفر کا آغاز فلم "تیری یاد" سے کیا۔ عمر بھر محبتوں کےسفیر رہے۔ جذبات کی خوبصورت ترجمانی قتیل شفائی کی پہچان بنی۔ فلمی نغمہ نگاری میں ان کا بڑا نام ہے، فنی خدمات کے اعتراف پر حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس اور نقوش ایوارڈ سمیت کئی اعزازات سے نوازے گئے۔
ادبی میگزین "ادب لطیف" کے نائب مدیر رہے۔ ہریالی، جلترنگ، پیراہن، ابابیل اور پھوار ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ ان کی شاعری کا چینی، روسی، انگلش، ہندی اور گجراتی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔ قتیل شفائی 2001 میں بزمِ یاراں چھوڑ کر راہی عدم ہوئے۔
قتیل شفائی نے صرف تیرہ برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیے تھے اور ان کا پہلا مجموعہ کلام ہریالی انیس سو بیالیس میں شائع ہوا تھا۔
قتیل شفائی کے تحریر کردہ گیت اور نغمات کو پاکستان کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم تیری یاد میں شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری میں سب سے زیادہ تعداد میں مقبول ہونے والے گیت انہی کی نوک قلم سے نکلے۔ انہوں نے اپنے دور کے تمام چھوٹے بڑے موسیقاروں کی موسیقی میں نغمات تحریر کیے۔
شاعر قتیل شائی نے فلم نائلہ، نوکر، انتطار اور عشق لیلیٰ جیسی شہرہ آفاق فلموں کے گیت لکھے جو پاکستان کے علاوہ بھارت میں آج بھی گونجتے ہیں۔
قتیل شفائی نےدو سو ایک فلموں میں نو سو سے زائد گیت تحریر کئے۔ وہ پاکستان کے پہلے فلمی نغمہ نگار تھے۔ جنہیں بھارتی فلموں کے لیے نغمہ نگاری کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ قتیل شفائی نے کئی فلمیں بھی بنائیں جن میں پشتو فلم عجب خان آفریدی کے علاوہ ہندکو زبان میں بنائی جانے والی پہلی فلم قصہ خوانی بھی شامل ہے۔
قتیل شفائی کے شعری مجموعہ جات میں ہریالی، جل ترنگ، روزن، جھومر، پیراہن، برگد، آوازوں کے سائے، گفتگو اور دیگر شامل ہیں۔
قتیل شفائی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ اس کے علاوہ قتیل شفائی نے آدم جی ایوارڈ، نقوش ایوارڈ، اباسین آرٹ کونسل ایوارڈ اور امیر خسرو ایوارڈ بھی حاصل کیے۔