ایک نوجوان ناروے سے لوٹا ،اس نے سکنڈے نیوین کنٹریز کے بارے میں جو کچھ کہا وہ ہم عام پاکستانیوں کیلئے ہوشربا انکشافات سے کم نہیں۔ ان ممالک ناروے، ڈنمارک اور سویڈن میں ’عمر لاز‘ کا اُن کی اصل حالت میں نفاذ ہے۔ حضرت عمرؓ کے دور کا ایک نقشہ ان ممالک میں نظر آتا ہے۔ اس نوجوان کی تنخواہ پاکستانی کرنسی کے مطابق 11 لاکھ روپے ہے۔ اس میں سے 37 فیصد ٹیکس کٹتا ہے۔اسکے عوض خوراک اور رہائش کے سوا تعلیم صحت اور دیگر سہولتیں سرکار کی ذمہ داری ہے۔ اس نوجوان نے گھر کرائے پر لیا ۔کرایہ دو لاکھ روپے ہے۔ اسکے ساتھ ہی اس نے قرض لے کر گھر خرید لیا جو پانچ کروڑ میں پڑا۔ جس گھر کیلئے قرض لیا گیاا سکی کرائے کے برابر قسط مقرر ہوئی۔ وہ اسی گھر میں رہائش پذیر ہے۔ ٹیکس کی صورت میں کٹنے والی رقم کا بڑا حصہ سال کے آخر میں حکومت ٹیکس گزار کو دو ماہ کی چھٹیوں کے ساتھ ملک سے اندر باہر گزارنے کیلئے ادا کر دیتی ہے۔ زچگی کی صورت میں خاتون کیلئے تمام تر میڈیکل کے اخراجات کے ساتھ بہتر صحت کیلئے کچھ رقم بھی ادا کی جاتی ہے۔دنیامیں جس نے بھی بلا امتیازمذہب و ملت مدینہ کی فلاحی ریاست کا تصور اپنایا وہ ریاست دنیا کی جنت نظیر تصویر بن گئی اور جن قوموں نے تصور ریاست مدینہ کواپنانے سے اغماض برتا جہنم زار بننا انکا مقدر ٹھہرا۔ اس میں ہم خود بھی شامل ہیں۔ اب وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان کو ریاست مدینہ کی طر ز پر فلاحی ریاست بنانے کی کوشش کا آغاز ہوا ہے۔ نیت درست ہو تو اس دنیا میں کچھ بھی ممکن ہے۔وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جو انسان سوچ رکھتا ہے۔ اسکی سب سے بڑی مثال خود عمران خان ہیں۔ وہ کرکٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ ان کو کمنٹری کی پرکشش معاوضے پر پیشکش تھی مگر انہوں نے پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے اور اسے فلاحی ریاست بنانے کا عزم کیا ، قوم اس حوالے سے انکے شانہ بشانہ ہو گئی۔ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا مشکل نہیں ہے۔ قوم یہی چاہتی ہے حکمران کی نیت ٹھیک ہے،کاوش راست سمت میں ہے۔اللہ رب العزت بھی ان کی مدد کرتا ہے جو آپ اپنی مدد پر آمادہ ہوں۔ وزیراعظم کے پاس بہترین لوگ ہیں۔ ان میں سے عمدہ ٹیم تشکیل دی جاسکتی ہے۔ آج انکی ٹیم میں جہاندیدہ لوگ شامل بھی ہیں۔ مگر کچھ پیشہ ور وزیر مشیر بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے جن کی کارکردگی ان کو بے نقاب کئے دے رہی ہے۔ ریلوے ایک بہترین ادارہ اور پاکستان کے سفر کرنیوالے لوگوں کے کلچر کا حصہ بن گیا ہے۔ مجھے خود ریلوے کے سفرنے ہمیشہ طمانیت بخشی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں غلام احمد بلور نے ریلوے کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔انکے بعد مسلم لیگ ن کے دور میں بہت سے محکمے ڈوبے۔ پی آئی اے، سٹیل مل کی زبوں حالی نوشتہ دیوار ہے۔ گیس سیکٹر کا تو بیڑا غرق ہو گیا، منافع میں جانیوالا یہ سیکٹر بھی خسارے کی بھینٹ چڑھ گیا۔ تاہم لیگی دور میں ریلوے کی حالت بہتر ہوئی اُس دور میں اگر کسی شعبہ میں بہتری آئی تو فقط ریلوے تھی۔ پی ٹی آئی دور میںاس وزارت کا قلم دان شیخ رشید کے حصے آیا ۔ امید تھی وہ اسے بہت آگے لے جائینگے مگر ریلوے کی ترقی کو ریورس گیئر لگ گیا اور حادثات کا تو کوئی شمار قطار ہی نہیں۔ پی ٹی آئی دورمیں سٹیل مل اور پی آئی اے کی حالت سدھر رہی ہے مگر ریلوے کا محکمہ اسکے وزیر کی نحوست کے باعث ڈی ریل ہو رہا ہے۔ اس کا اندازہ حادثات سے ہوتا ہے۔ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ماورا النہر میں آسیب نے ڈیرے جما لیے ہیں۔ ماورا النہر کے اہم ترین شہر سمرقند اور بخارا،خجند،اشروسنہ اور ترمذ شامل تھے پانچ صدیوں تک یہ ملک اسلامی ایران اور عالم اسلام کا متمدن ترین ملک رہا ہے یہ بہت مشہور بزرگ علما ،دانشور، درویش اور اولیاء اللہ کا مدفن و مسکن رہا۔ریلوے کے حوالے سے عام آدمی کی آس یاس میں بدل رہی ہے۔ریلوے کے اوقات کار درست ہوئے نہ حادثات پر قابو پایا جاسکا۔2019ء کو ٹرین حادثات میں کی وجہ سے خونیں سال قرار دینا اس لئے غلط نہ ہو گا کہ رواں برس میں 146 حادثات میں 115 مسافر جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ ہر حادثے کے بعد عوامی حلقوں کی طرف سے وزیر ریلوے کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جاتا ہے جو چند دنوں بعد دم توڑ جاتا ہے، تو دوسری طرف حکومتی سطح پر ہر سانحہ کے بعد انکوائری کمیٹی بناکر شفاف تحقیقات کے بجائے معاملہ کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا ثبوت ہر حادثے کے بعد ملبہ ڈرائیور پر ڈال کر انسانی غلطی کی آڑ میں ذمہ داری سے فرار حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ حالانکہ وزیر ریلوے متعدد بار ریلوے کے بوسیدہ ٹریک اور ناقص کمیونیکیشن نظام کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ریلوے کے حادثات میں انسانی غلطی کو جواز بنا کر ذمہ داروں کو بچانے کی دانستہ کوشش کہنا اس لئے بھی غلط نہ ہو گا کیونکہ رواں برس 33 حادثات ٹرین کے پٹری سے اترنے سے ہوئے ہیں۔ اسی طرح 45 حادثات ان مینڈل لیول کراسنگ جبکہ 22 مینڈل کراسنگ پر ہوئے ہیں۔ شیخ رشید کے دور اقتدار میں اب تک مال بردار اور مسافر ٹرینوں کے پٹریوں سے اترنے ،ان مینڈ اور مینڈ لیول کراسنگ سمیت ٹرین میں آگ لگنے کے 90سے زائد حادثات ہوچکے ، درجنوں افراد جاں بحق ہوگئے ، 31 اکتوبر کو تیز گام سانحہ سب سے بڑا حادثہ تھا۔حادثات کی تعداد کم ہوسکتی ہے۔وزیراعظم عمران خان ایسے شخص کو یہ وزارت دیں جو اپنے عہدے سے انصاف کرسکے اور ریلوے کو اس کاجائز مقام دلا سکے۔شیخ صاحب کو بیان بازی کیلئے مختص کردیا جائے جو انکا شوق ہے۔