ہندوستان کی تقدیر اور بنگال کا کلکتہ

بنگلہ دیش کی ہمسایہ بھارتی ریاستوں میں موذی مودی کی بھڑکائی نفرت وتعصب کی آگ سارے بھارت دیش کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ جہاں ہندو دوسرے ہندو کو برداشت کرنے کو تیار نہیں، وہاں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، تبت، سری لنکا اور میانمار کی اقلیتوں کیلئے دروازے کھولنے کی بات کسے بے وقوف بنانے کی کوشش ہے؟؟ خدا کی قدرت ہے کہ قیام پاکستان سے قبل گاندھی کے ساتھ قائداعظمؒ نے دوقومی نظریہ کی جوجنگ لڑی تھی، آج وہ دلائل خود موذی کے منہ سے سند پارہے ہیں۔ آج کا موذی کہہ رہا ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کو رہن سہن، کھانا پینا، سوچ، عقیدہ اور عبادت سب الگ ہے۔ موذی کے جھوٹ کیخلاف سیکولر بھارت اور وہاں کی سول سوسائٹی نے بغاوت کردی ہے، دنیا بھر سے ہونے والی لعن طعن نے بھارتی نازی پارٹی کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دئیے ہیں۔
مذہبی انتہا پسند نریندر مودی ہے۔ بھارتی آئین کے اصل غدار موذی اور بی جے پی ہیں جس نے آئین کے بنیادی ڈھانچے اور بھارت کے بانیان کی سوچ اور نظریے کو نفرت کے کفن میں لپیٹ کر تعصب کی قبر میں دفن کردیا۔ 29بھارتی ریاستیں اور دہلی سمیت سات وفاقی علاقے بی جے پی کی نفرت کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ تلواروں، چاقوئوں، نیزوں، ڈنڈوں اورآگ سے ڈرانے والے جتھے کہیں بل میں گھس گئے ہیں۔ سڑکوں پر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سمیت طالب علموں کے ہجوم ہیں۔ ساری دنیا میں بھارت کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ طالب علموں پر بلاامتیاز گولیاں، آنسو گیس کے گولے اور ڈنڈے برساتی بھارتی پولیس پوری دنیا میں رسوائی کے نئے جھنڈے گاڑ چکی ہے۔ دہلی کی سڑک پر لٹھ بردار بھارتی پولیس کے درندوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوجانے والی معصوم طالبات کی تصویر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہے۔ ساتھی طالب علم کو پولیس کی درندگی سے بچانے کیلئے دیوار بن جانے والی یہ طالبات مودی کے ظلم کے سامنے مزاحمت کا طاقتور استعارہ بن کر ابھری ہیں۔
دوسروں کی تین تین نسلوں کا حساب مانگنے والا موذی اپنی زندگی کے نامعلوم اور لاپتہ پندرہ سال کا حساب دینے کوتیار نہیں۔اپنی ہزیمت پر پردہ ڈالنے کیلئے وہ اپوزیشن کو لتاڑرہا ہے کہ حزب اختلاف نے پاکستان کیخلاف اسکے ایجنڈے کو ناکام بنادیا۔ اس کا اصل نشانہ پاکستان ہے۔ بوکھلائے موذی نے دلت رہنما چندرشیکھر آزاد کو بھی رگڑا دیا اور یہ ہرزہ سرائی کی کہ پاکستان سے دلت ہی بھارت آرہے ہیں۔ موذی کی یہ یاوہ گوئیاں اثر نہیں دکھارہیں کیونکہ پورے بھارت میں سیکولر ہندوستان کی لہر نے موذی اور بی جے پی کا جنازہ نکال کررکھ دیا ہے۔
شہریت ایکٹ 1955ء میں 11 دسمبر2019ء میں ترمیم کرکے کالے شہریت (ترمیمی) ایکٹ2019 بدل دیا گیا۔ اس قانون کی ترمیم اور منظوری کے پیچھے سیاسی چال اور ایک خبیث گندی سوچ کارفرماتھی۔ کہاگیا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مذہبی ناروا سلوک سے بھاگ کر آنیوالی اقلیتوں کو بھارتی شہریت دی جائیگی لیکن کسی مسلمان کو یہ سہولت میسر نہیں ہوگی۔ اسکے پیچھے صریحاً شرارت اور خبث باطنی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہوکر سامنے آرہی ہے۔ دہلی اور بھارتی کے دیگر حصوں میں سڑکوں پر نکلے عوام اور طالب علموں نے سوالات کی بوچھاڑ کرکے شہریت بل کا پوسٹمارٹم کردیا ہے اور بی جے پی کے ’’کھڑپینچوں‘‘ کو جواب نہیں آرہا۔
اس قانون کے تحت پہلی مرتبہ مذہب کو شہریت دینے کا معیار بنایاگیاہے جسے بھارتی سول سوسائٹی نے اپنے شدید ترین ردعمل کے ذریعے مسترد کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کشمنر برائے انسانی حقوق نے اس قانون کو ’’بنیادی طورپر امتیازی‘‘ قرار دیا ہے۔ شہریت ترمیمی بل (کیب) کے ذریعے 64 سال پرانا بھارتی شہریت کا قانون تبدیل کردیاگیا ہے۔ ہر وہ شخص غیرملکی کہلاتا تھا جسکے پاس درست یا قانونی سفری جواز یا دستاویزات موجود نہیں ہوتے تھے۔ ایسے افراد کو واپس بھجوایا جاتا یا قید کردیاجاتا۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شہری بھارت میں رہائش پزیرہو یا دس سال قبل وفاقی حکومت کیلئے اس نے کام کیاہو تو وہ بھارتی شہریت کیلئے درخواست دینے کا اہل ہے۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی چھ اقلیتوں کیلئے خصوصی استثنی دیاگیا ہے۔ ان میں ہندو، سکھ، بودھ مت، جین، پارسی اور مسیحی شامل ہیں۔ اگر یہ ثابت کردیں کہ وہ پاکستان، افغانستان یا بنگلہ دیش سے ہیں تو بھارت میں چھ سال کام کرنے یا رہنے کے بعد وہ شہریت کیلئے درخواست دے سکیں گے۔
سٹیزن ترمیمی بل پہلی بار جولائی 2016ء میں پارلیمان میں پیش کیاگیاتھا۔ لوک سبھا جہاں بی جے پی کی اکثریت تھی، بل منظور ہوگیا لیکن راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا میں منظور نہیں ہوسکا تھا۔2018ء کے انتخابات میں بی جے پی کو واضح انتخابی اکثریت نے اس کا کام آسان کردیا اور اس نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے، رام مندر کی تعمیر کا سپریم کورٹ سے فیصلہ لینے کے بعد اپنے منشور کے اس تیسرے انتہائی متنازعہ اور متعصبانہ نکتے کو عملی جامہ پہنانے کا عمل شروع کیا۔ شہریت کا قانون بی جے پی کے منشور کا تیسرا نکتہ تھا جس پر اب عمل کیاگیا۔
بھارتی آئین مذہب کی بنیاد پر شہریوں میں تفریق سے منع کرتا ہے۔ سیکولرازم کی بنیاد پر قائم بھارتی ریاست اور اس کا دستور مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھتا ہے جبکہ بی جے پی کے منشور کا حصہ ہے کہ وہ بھارت کے سیکولرازم کو ختم کرکے اسے خالص مذہبی ریاست اور کٹرہندو ملک میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے شہریت کے قانون کو بھارتی آئین کے آرٹیکل پانچ، دس، چودہ اور پندرہ کے صریحاً منافی قرار دیا جارہا ہے۔ شہریت کے ایکٹ 1955 میں بیرون ملک سے غیر قانونی طور پر آنیوالے لوگوں کی تعریف کی گئی ہے۔ ان میں دو درجے بنائے گئے ہیں۔ ایک میں وہ لوگ آتے ہیں جو پاسپورٹ یا ویزے یعنی بغیر ضروری دستاویزات کے بھارت آئے ہیں جبکہ دوسرے درجے میں وہ افراد شامل ہیں جو درست سفری دستاویزات کے ساتھ بھارت آئے لیکن مقررہ وقت کے بعد واپس نہیں گئے۔ اسکے سیکشن دو میں ترمیم کے ذریعے بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے چھ برادریوں کو غیر قانونی تارکین وطن کے زمرے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ لیکن اس ترمیمی بل میں لفظ ’’مسلم‘‘ کو شامل نہیں کیاگیا۔ یعنی اگر ان تینوں ممالک سے کوئی فرد سفری دستاویزات کے بغیر آیا ہے لیکن وہ مسلمان ہے تو وہ ’’غیر قانونی تارک وطن‘‘ کہلائے گا اور اسے انڈیا میں شہریت کے لیے درخواست دینے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ اس بل کی منظوری کے بعد مسلمانوں کے سوا باقی چھ مذہبی برادریاں بھارتی شہریت کی اہل ہوں گی۔بھارتی دستور کی شق پانچ میں کہا گیا ہے کہ جب آئین نافذ ہو رہا تھا تو اس وقت بھارت کا شہری کون ہوگا۔ اس شق میں وضاحت کی گئی ہے کہ ہر وہ شخص بھارتی شہری ہوگا جو ’’شخص بھارت میں پیدا ہوا تھا، یا جس کے والد یا والدہ بھارت میں پیدا ہوئے تھے، یا جو شخص آئین کے نفاذ سے قبل کم از کم 5 سال سے بھارت میں رہ رہا ہے تو وہ بھارت کا شہری ہوگا۔‘‘
26 جنوری 1950 کو آئین کے نفاذ کے دن بھارت کا شہری کون ہوگا؟ اس کا ذکر آئین کے آرٹیکل پانچ میں موجود ہے۔بھارتی دستور کی 7، 8، 9 ، 10 اور 11شقیں بھی اس ضمن میں نہایت اہم بتائی جاتی ہیں۔ بھارتی دستور کی شق 10کے تحت شہری حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔آرٹیکل 14 میں مساوات کا ذکر ہے یعنی کسی بھی فرد کو قانون کی نظر میں مساوات یا مساوی حقوق کے تحفظ سے محروم نہیں کیا جائیگا۔ آرٹیکل 15 کیمطابق ریاست کسی شہری کے ساتھ مذہب، نسل، ذات، جنس، جائے پیدائش یا ان میں سے کسی بھی بنیاد پر کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کریگی۔ اسی بناء پر ماہرین کا خیال ہے کہ متنازعہ شہریت قانون کو آرٹیکل 14 اور 15 کی خلاف ورزی کی بنا پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور حکومت کیلئے عدالت میں اس کا دفاع کرنا مشکل ہوگا۔ آرٹیکل 13 کے حصہ تین میں انڈیا کے شہریوں اور اس میں رہنے والوں کے کئی بنیادی حقوق کا ذکر ہے۔ آرٹیکل 13 کا کہنا ہے کہ نہ ہی پارلیمنٹ اور نہ ہی حکومت یا کوئی ریاست ایسا کوئی قانون تشکیل دے سکتی ہے جو ان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرے۔آسام چائے پیدا کرنیوالی دلکش مناظر سے سجی خوبصورت ریاست ہے۔ ہزار فوجی دستے تعینات ہیں، کرفیو نافذ ہے، انٹرنیٹ سروس بند ہے۔ آسام بھارت کی پیچیدہ ترین ریاست تصور ہوتی ہے کیونکہ وہاں کئی طرح کی نسلیں آباد ہیں۔ یہاں تین کروڑ بیس لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے بعد سب سے زیادہ مسلمان آبادی یہاں آباد ہے۔ آسام بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ عدم استحکام ہے۔ یہاں کے باشندے اپنی تین الگ ریاستیں بنانے کے خواہش مند ہیں۔ شہریت اور لسانی شناخت کی بناء پر یہاں کشمکش جاری ہے۔
بھارتی ہندو توا کا آخری معرکہ شوریدہ اور جانباز بنگالیوں سے ہونے جارہا ہے بھارتی یونین کا فیصلہ کولکتہ کے گلی کوچوں میں ہو گا وہی کلکتہ جہاں مکتی باہنی کی بنیاد رکھی گئی تھی جس ضرب نے کاری لگا کر متحدہ پاکستان ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، اب بنگالی قوم پرستی کا عفریت بھارتی یونین کو نگل جائے گا کوئی مانے نہ مانے یہ نوشتہ دیوار ہے ۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...