پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے متحدہ عرب امارات کا دو روزہ دورہ کیا ہے جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی 17دسمبر دبئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہ پہنچے توان کا استقبال د بئی میں پاکستانی قونصل جنرل امجد علی نے کیا۔ مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر اس دورہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ چند روز قبل متحدہ عرب امارات نے 13 اسلامی ممالک کے لوگوں پر سفری پابندیاں عائد کی ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس پابندی سے یو۔ اے۔ ای میں پاکستانی ملازم پیشہ لوگ شدید متاثر ہوں گیاوران کے خاندانوں کو بین الاقوامی نقل و حرکت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق یو۔ اے۔ ای میں موجود پاکستانی محنت کشوں نے تقریباً 512ملین ڈالرز کی خطیر زرمبادلہ نومبر کے مہینے میں بھیجی ہے۔ جو کہ بیرون ملک سے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم کا تقریباً 22 فیصد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 15لاکھ پاکستانی یو۔ اے۔ای میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یو۔ اے۔ ای کی جانب سے پاکستان سمیت 13 مسلم ممالک کے باشندوں پر ویزا کے اجرا پر پابندی سے مزید پاکستانیوں کو ملازمتوں کا حصول ناممکن ہو جائے گاجب کہ دوسری جانب بھارتی باشندے یو۔ اے۔ ای کا ویزا حاصل کر سکتے ہیں جو کہ ملازمت کے حصول کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت یو۔اے۔ای میں تقریباً 34 لاکھ بھارتی رہائش پذیر ہیں جو کہ یو۔اے۔ای کی آبادی کا تقریباً 27فیصد بنتے ہیں۔ یو۔اے۔ای کی آبادی میں پہلا نمبر مقامی لوگوں کا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر بھارتی اور تیسرے نمبر پاکستانی رہائش پذیر ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا شاہ محمود قریشی کا دورہ اس لیے اہم تھا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ورکنگ گروپس کوتشکیل دیا جائے تاکہ دونوں ممالک کے باشندوں میں ہم آہنگی قائم ہو سکے۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شیخ محمد راشد بن المکتوم سے ملاقات کی جو کہ یو۔اے۔ای کے نائب صدر اور وزیر اعظم ہیں جبکہ دبئی کے حکمران بھی ہیں۔ شیخ محمد راشد بن المکتوم انتہائی روشن خیال اور جدت پسند حکمران تصور کیے جاتے ہیں اوردبئی میں جدید کامیاب تعمیراتی منصوبوں کے دلدادہ ہیں۔ جدید دبئی کی ترقی اور سیر و سیاحت میں ان کا اہم کردار تصور کیا جاتا ہے۔ اس وقت بے شمار ترقیاتی منصوبے دبئی میں زیر تعمیر ہیں جن میں لاکھوں پاکستانی اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اس ملاقات سیدونوں ممالک کیدرمیان تعلقات کو مضبوط کرنے کے موقع میسر آئیں گے۔
متحدہ عرب امارات کے نائب صدر شیخ محمد بن راشد المکتوم کو دبئی کا جدت پسند حکمران سمجھا جاتا ہے اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں اہم کردار تصور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ تین ماہ میں چار عر ب ممالک جن میں متحدہ عرب امارات، بحرین، عمان اور سوڈان شامل ہیں نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور باقاعدہ سفارتی تعلقات استوار کر لیے ہیں جو کہ گزشتہ سات دہائیوں سے اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان کشیدگی میں یکسر تبدیلی کی نوید ہے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ براہ راست فضائی رابطہ بحال ہو چکا ہے اور دونوں ممالک کے باشندے با آسانی فضائی سفر کر سکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات مشرق وسطیٰ میں ترقی یافتہ ملک تصور کیا جاتا ہے جس کی آمدنی کا 70فیصد ذریعہ سیرو سیاحت کا شعبہ ہے۔ جبکہ تقریباً 45 فیصد تیل و گیس سے حاصل ہوتا ہے۔ دبئی کے صراحوں کو جدید سیروسیاحت کے مراکز میں تبدیل کرنا قابل ستائش ہے۔ دبئی نے دنیا سے تجارت کو ڈیوٹی فری کی بنیاد پر فروغ دیا ہے۔ گزشتہ دہائیوں سے دبئی کے دوسرے ممالک سے تعلقات تجارت کی بنیاد پر استوار ہو رہے ہیں۔ دبئی کے حکمرانوں کو امریکہ کے قریب تصور کیا جاتا ہے اور امریکہ نے جدید ایف سولہ بھی یو۔اے۔ای کو دیے ہوئے ہیں۔ کرونا نے دنیا بھر کی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ سیر و سیاحت سے منسلک تمام منصوبہ جات شدید متاثر ہوئے ہیں۔متحدہ عرب امارات کی لگ بھگ 50 فیصد آمدنی سیر وسیاحت کے شعبے سے منسلک ہے۔ اس تناظر میں متحدہ عرب امارات کرونا وائرس سے شدید متاثر ممالک میں شامل ہے۔متحدہ عرب امارات کے حکمران کوشش کر رہے ہیں کہ نئی کاروباری شراکت داری کیلئے ممالک کو تلاش کیا جائے اور تجارتی تعلقات کو استوار کیا جائے تاکہ معیشت کو سہارا مل سکے۔
گزشتہ چند سالوں میں بھارت اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں قربت آئی ہے جبکہ مبصرین کے مطابق دونوں ممالک کے تعلقات کافی مضبوط ہوئے ہیں۔ اس کی اہم اور بنیادی وجہ دونوں ممالک کے تجارتی حجم میں اضافہ ہے اور دوسری بڑی وجہ بھارتی’’ورک فورس‘‘ ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے 17 اور 18 دسمبر 2020 کے دورہ میں متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کی اور تعلقات کومضبوط اور مستحکم بنانے پر زور دیا۔ اس دورہ کا اہم مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔ بین الاقوامی حالات و واقعات ممالک کے درمیان تعلقات کو ازسر نو مرتب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان ورکنگ گروپس کو تشکیل دیا جائے اور ان کے درمیان باقاعدہ ایک دوسرے کے دورہ کا اہتمام کیا جائے تاکہ دونوں ممالک کے باشندے ایک دوسرے کے قریب آ سکیں۔ پاکستانی افرادی قوت کو ماہر افرادی قوت بنانے کی ضرورت ہے جیساکہ اس وقت پاکستان کے پڑوسی ممالک بھارت، سری لنکا اور بنگلا دیش میں ہو رہا ہے۔ ماہر افرادی قوت ہی جدید تقاضوں کو مد نظر رکھ کر اپنی خدمات انجام دے سکتی ہے۔ پاکستان کے بیرون ملک قونصل خانے اورایمبیسی افرادی قوت کو ماہر افرادی قوت بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مختلف کورسز کا باقاعدہ آغاز کیا جائے جس کا دورانیہ یومیہ/ ہفت روزہ ہونا چاہیے اور اعلیٰ پائے کے ماہرین سے ٹریننگ کورس کا انعقاد کروانا چاہیے۔ اس طرح پاکستانی ماہر افرادی قوت زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کا سبب بنے گی۔