سرد موسم میں مہلک کرونا وائرس کی دوسری لہر نے ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کے معمولاتِ زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے اور طبعی حلقوں ، سائنسدانوں میں ایک مرتبہ پھر اس وائرس سے متعلق تشویش پیدا ہو گئی ہے اور اِن کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے جنیاتی تغیر کی وجہ سے دوسری لہر زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ دورِ حاضر کے محققین اور مورخین دنیا کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ کرونا وائرس سے پہلے کی دنیا، اس عالمگیر وبا کے دوران کی دنیا اور اس کے بعد کی دنیا۔ برطانوی ماہرینِ وبائی امراض کے مطابق کرونا کی موثر ویکسین تک عالمی وبا سے قبل کے حالات کی واپسی ممکن نہیں۔ 31دسمبر 2019کو چین کے شہر ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ سے جنم لینے والی یہ بیماری اْس وقت محض معمولی نزلہ اور زکام تصور کی جارہی تھی۔ مریض نمونیا کی شکایت کے ساتھ آرہے تھے۔ اس وائرس کی تیز وتند آندھی ایک شہر سے دوسرے شہروں، صوبوں و ممالک میں پھیلتی چلی گئی اور اب تک تقریباً تمام ممالک اسکی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ تقریباً پوری دنیا مکمل لاک یا نیم لاک ڈائون کا شکار رہی۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ اسکول ، کالج، دفاتر ، ہوٹلز ، بازار وغیرہ سلب ویران وسنسان ہیں۔
شہر سنسان ہے کدھرجائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں
1720 میں طاعون، 1820 میں ہیضہ نے تقریباً 1، 1 لاکھ افراد، 1918-20 میں ہسپانوی فلو نے کم وی بیش 5 کروڑ افراد کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور اب 2020 میں کرونا وائرس نے پورے عالم میں تباہی مچا رکھی ہے۔ دنیا میں اب تک تقریباًساڑھے سات کروڑ افراد اسکا شکار ہو چکے ہیں جبکہ تقریباً سولہ لاکھ تیس ہزار اموات رپورٹ ہوئیں۔ جبکہ پاکستان میں تقریباً ساڑھے چار لاکھ افراد متاثر ہوئے اور نو ہزارافراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان میں کرونا کی وبا کا پھیلاؤ اگر مختصر وقت میں نہ روکا گیا تو 72 لاکھ لوگ بے روز گار ہو سکتے ہیں۔ 30 جنوری 2020 کوعالمی ادارہ صحت نے پبلک ہیلتھ ایمرجنسی ا?ف گلوبل قنسرن (عالمی تشویش کی صحتِ عامہ کی ہنگامی صورتحال) کا اعلان کیا۔ اس وائرس کے جینوم کی ترتیب کے مطالعہ کے بعد اسکو نوول کورونا وائرس (2019-nCov) کانام دیا گیا۔ 11 فروری 2020 کو عالمی ادارہ صحت نے اس وائرس سے ہونیوالی بیماری کو کورونا وائرس ڈیزیز (Covid 19) کا نام دیا گیا۔ جبکہ 11 مارچ 2020 کو عالمی ادارہ صحت نے اس بیماری کو عالمی /عالمگیر وبا قرار دیا۔ یہ وائرس چھینکنے ، کھانسنے، ہوا میں سانس لینے، تھوکنے ، کسی چیز کو چھونے، ہاتھ ملانے، بغلگیر ہونے سے پھیل سکتا ہے۔ چینی ماہرین امراضِ چشم کی تحقیق کے مطابق یہ وائرس آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں سے بھی پھیل سکتا ہے۔ بقول شاعر ’’اب سب کو سبھی سے خطرہ ہے ‘‘۔اسکی علامات میں نزلہ، زکام ، کھانسی ، تھکاوٹ ، جسم اور پٹھوں میں درد، بلغم ، آشوبِ چشم اور سانس لینے میں دشواری شامل ہے۔ اس وائرس کا انکوبیشن پیریڈ (و دورانیہ جس میں وائرس اپنی علامات ظاہر کرنا شروع کرتا ہے ) 1-14 دن بتایا جا رہا ہے۔ یہ وائرس بہت تیزی سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے جبکہ اسکی شرح اموات بہت کم ہے۔
امریکا کے طبی ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پرپونشن (سی ڈی سی ) نے مندرجہ ذیل نئی علامات کو فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ ڈائریا ، ٹھنڈ لگنا، ٹھنڈ لگنے سے مسلسل کپکپی، گلے کی سوجن ، سونگھنے یا چکھنے کی حِس سے اچانک محرومی۔ امریکا کی پسلوانیا یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن کے ماہرین نے ایک اور علامت کی نشاندہی کی ہے جسے ’’کووڈ ٹوئیز‘‘ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اس میں مریض کے پیروں اور پیروں کی انگلیوں پر نیلے یا جامنی رنگ کے نشان یا زخم ابھرتے ہیں یہ زخم یا نشان چھونے پر تکلیف دہ ہوتے ہیں اور ان میں جلن کا احساس بھی ہوتا۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کورونا وائرس سے کم ہی متاثر ہوتی ہیں اسکی وجہ خواتین کے مخصوص قدرتی ہارمونز پروجیسٹرون اور ایسٹروجن ہیں۔ ان ہارمونز میں قوت مدافعت بڑھانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے فضائی آلودگی کو کورونا مریضوں کے لیے اضافی خطرہ قرار دیا ہے۔
حدیث ہے کہ ’’جب تمہیں کسی سر زمین میں طاعون نامی وبا کا علم ہو اس سر زمین میں داخل مت ہو۔ اور جب کسی ایسی سر زمین میں ’’طاعون ‘‘ پھیل جائے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سر زمین سے باہر مت نکلو‘‘سماجی فاصلہ اختیار کریں اور ایک دوسر ے سیکم از کم 3 فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ بقول شاعر
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو۔
•چھینک یا کھانسی اآنے کی صورت میں فوراً ناک اور منہ کو کہنی یا ٹشو پیپر سے ڈھانپیں تا کہ جراثیم فضا میں شامل نہ ہوں۔
•نزلہ ، زکام اور کھانسی کی صورت میں گھر پر رہ کر قرنطینہ (تنہائی) اختیار کی جائے اور اگر پھر بھی طبیعت ناساز رہے تو حکومتی ہیلپ لائن 1166 پر کال کریں یا ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
عجب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی
بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں
اوپر دی گئی احتیاطی تدابیر پر ہر کوئی سختی سے عمل پیرا ہو اور اس وائرس سے بچنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ بقول شاعر
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
تادم تحریر اس وائرس کی ویکسین پر بڑی تیزی سے کئی ممالک میں کام جاری ہے اور ویکسین کلینیکل ٹرائلز (طبعی آزمائش) کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔