نئی سیاسی جماعت، سمجھدار پیپلز پارٹی اور حکومتی کارکردگی کے راستے کی رکاوٹ!!!!

2002 کے عام انتخابات کے بعد ایک نئی سیاسی جماعت حکومت میں آئی 2007 کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور 2013 کے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ نواز حکومت میں آئی۔ ان تینوں ادوار کو دیکھا جائے تو کوئی ایک وزیر اعظم بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ الگ بحث ہے کہ منتخب نمائندے کیوں آئینی  پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے لیکن تینوں ادوار میں جمہوری حکومتیں اور ادارے ایک پالیسی پر متفق نہیں ہو سکے۔ وہ پرویز مشرف کا دور ہو یا آصف علی زرداری ہوں یا پھر میاں نواز شریف کا دور ہو ہر مرتبہ سنجیدہ نوعیت کے مسائل رہے ہیں۔ وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی ہوں یق شوکت عزیز یا یوسف رضا گیلانی یا راجہ پرویز اشرف یا میاں نواز شریف یا پھر شاہد خاقان عباسی سب وزرائے اعظم، پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں کے مابین جنگ کی کیفیت رہی ہے۔ اسے مانا جائے یا نہ مانا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور ملکی دفاع کے حوالے سے پارلیمنٹ کی سوچ مختلف ہوتی ہے۔ قانون کی عمل داری اور انصاف کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے عدالت کی سوچ کچھ اور ہوتی ہے جب کہ منتخب نمائندوں کی سوچ کچھ اور ہوتی ہے۔ 
 2002 کا جمہوری سفر 2020 کے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس عرصے میں شاید ہے یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت بالخصوص دفاعی اداروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دفاعی اداروں کی جانب سے بھی ہمیشہ یہی نقطہ نظر اپنایا گیا ہے کہ حکومت کوئی بھی ہو ادارے جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ جمہوریت کا ساتھ دیں گے اور دفاع پاکستان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔ اس کے تناظر میں دیکھیں تو موجودہ حکومت ابھی تک عدلیہ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ سے حکومت اور عدلیہ کے مابین ایک خلیج حائل ہے۔ اس خلیج کا اندازہ وقتاً فوقتاً حکومتی اقدامات و بیانات سے ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ تین مختلف ادوار میں تین مختلف جماعتوں کی حکومتوں کے بعد اب 2023 کے عام انتخابات میں کونسی سیاسی جماعت حکومت میں آتی ہے یہ سوچنے والی بات ہے لیکن ملک کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ 2023 کے عام انتخابات میں ایک نئی سیاسی ضرور حصہ لے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سیاسی جماعت حکومت قائم کرنے میں بھی کامیاب ہو جائے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے سے موجود بڑی سیاسی جماعتوں اور علاقائی سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی نئی سیاسی جماعت کیسے وجود میں آ سکتی ہے تو اس کے لیے ذہن پر زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں ہے۔  کیونکہ الطاف حسین کا سیزن ٹو میاں نواز شریف کی صورت مارکیٹ میں آ چکا ہے اور یہ سیزن ٹو لندن سے اپنی نشریات کا آغاز بھی کر چکا ہے۔ اب اب سیزن ٹو لندن سے اپنی نشریات جاری رکھے گا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملکی سیاست میں میاں نواز شریف شریف کا کوئی مستقبل موجود ہے تو وہ غلطی پر ہیں۔  ان تمام لوگوں کو الطاف حسین حسین کا انجام ذہن میں رکھتے ہوئے میاں نواز شریف کا مستقبل دیکھنا چاہیے۔ آج 1999 بھی نہیں ہے نہ ہی 2007 ہے۔ آج کا نواز شریف اور آج کے حالات ماضی کی نسبت بہت مختلف ہیں۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ میاں نواز شریف کا سیاسی کیرئیر اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں بننے والی سیاسی جماعت کا بڑا حصہ ان افراد پر مشتمل ہوگا جو میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے فوج اور ریاستی اداروں کے مخالف بیانیے کی حمایت نہیں کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہونگے جو اس ملک دشمن بیانیے کو ساتھ لے کر مسلم لیگ نون کے ساتھ سیاسی اننگز جاری نہیں رکھ سکیں گے ان حالات میں ایسے تمام افراد ایک نئی سیاسی جماعت میں شامل ہوں گے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے بغیر  ملک میں سیاست ممکن نہیں ہے وہ یہ بھی ذہن میں رکھیں ہیں کہ چند سال قبل تک الطاف حسین کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا تھا کہ کراچی اور سندھ کی سیاست میں سندھ اسمبلی کی سیاست الطاف حسین کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک زمانے یہ حقیقت بھی تھی الطاف حسین کی ایک آواز پر کراچی بند ہو جاتا تھا لیکن آج حالات بہت مختلف ہیں۔ الطاف حسین لندن میں قیدیوں سے بدتر زندگی گذار رہے ہیں اور ان کے سیزن ٹو میاں نوازشریف ویسے تو آزاد ہیں لیکن وہ کسی قیدی سے کم بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ نہ تو وہ اپنے والدین کی قبروں پر فاتحہ کے لئے آ سکتے ہیں نہ  اپنی بیٹی سے مل سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے بہن بھائیوں سے مل سکتے ہیں۔ نئی سیاسی جماعت آنے والے دنوں کسی بھی وقت بن سکتی ہے۔ ممکن ہے عام انتخابات سے سال ڈیڑھ سال قبل اس جماعت بارے کام شروع ہو سکتا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ 2021 میں ابتدائی طور پر اس حوالے سے کوئی سرگرمی نظر آئے اور پھر آہستہ آہستہ لوگ اس کا حصہ بنتے جائیں۔ اس نئی سیاسی جماعت کی وجہ سے سندھ میں بھی حالات مختلف ہو سکتے ہیں۔ یہاں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کو آنے والے سیاسی جوڑ توڑ میں قطعاً نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مستقبل میں جی ڈی ڈی اے کو ہمیشہ سیاسی جوڑ توڑ اتار چڑھاؤ او حکومت سازی میں اہم حیثیت حاصل رہے گی۔ وہ سندھ اور مرکز میں کسی بھی حکومت کے بنانے میں اہم کردار دار ادا کریں گے۔ آئندہ عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی حکومت سازی یا اقتدار کے ایوانوں میں رہنے کا معاملہ آئے تو انہیں بہتر جمہوری رویے کی وجہ سے فائدہ ہو۔ پیپلز پارٹی احتجاجی سیاست میں پاکستان ڈیمو کریٹک کا حصہ تو ہے لیکن اس تحریک میں وہ اپنے کارڈز نہایت سمجھداری سے کھیل رہی ہے بلکہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہوئے اپنا سیاسی راستہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بہت سارے لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو گی لیکن قمر زمان کائرہ کے حالیہ بیان کو ایک پرومو ضرور سمجھنا چاہیے۔ پاکستان پیپلز پارٹی وہ سیاست کر رہی ہے جس کے ذریعے وہ عوام میں بھی زندہ رہے اور حکومت سازی میں اپنا حصہ بھی لیتی رہے۔  اس لئے کسی شک و شبہ میں نہیں رہنا چاہیے کہ پاکستان پیپلزپارٹی میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے ملک دشمن بیانیے میں ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔ وہ نون لیگ کے کسی ایسے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوں گے جس کے مطابق یہ محسوس ہو کہ حق حکمرانی اور ریاست کے وسائل پر قبضہ میاں نواز شریف، مریم نواز شریف اور ان کے خاندان کا حق ہے۔ پیپلز پارٹی کو اپنی سیاست کرنی ہے اور وہ اپنی سیاسی پچ پر مخالف سیاسی جماعتوں کو کبھی کھیلنے کا موقع نہیں دے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے وزیروں کو یہ پیغام دیا ہے کہ دو سال کے بعد بہانہ نہیں چلے گا۔ وزیراعظم نے یہ اعتراف کیا کہ بغیر تیاری کی حکومت میں آنے سے نقصان ہوتا ہے۔ ان کے اس بیان کے دو پہلو ہیں ایک پہلو ان کی مثبت سوچ کو ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے ملبا ناکامی کی ذمہ داری قبول کی ہے اور یہ کوئی عام بات نہیں ہے یہ غیر روایتی طرز سیاست ہے۔ پاکستان میں کامیابی کو گود میں اٹھانے والے تو لاتعداد ہیں لیکن ناکامی کو گلے لگانے والا شاید عمران خان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ جہاں تک تعلق وزرا کی کارکردگی کا ہے اس مسئلہ ٹیم کے انتخاب کا ہے اگر کھلاڑیوں کا انتخاب صلاحیت اور کارکردگی کی بنیاد پر کیا جائے تو حالات مختلف ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی خراب کارکردگی کی سب سے بڑی وجہ نااہلی نالائقی اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کا نہ ہونا ہے۔ اگر آج بھی ٹیم میں تبدیلی کی جائے اہل اور عوامی نمائندوں کو ذمہ داریاں بھی جائیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عام انتخابات میں ان کے امیدواران عوام کے پاس جائیں گے تو وہاں کارکردگی کے علاوہ کوئی چیز کام نہیں آئے گی۔ اس وقت لوگ یہ نہیں پوچھیں گے معیشت ٹھیک ہوئی ی نہیں قرضے اترے یا نہیں، سیاسی جماعتوں میں موجود کرپٹ عناصر کو منطقی انجام تک پہنچایا یا نہیں اس وقت لوگ صرف اپنے مسائل کے بارے سوال کریں گے اور پاکستان کے ستانوے فیصد عوام کا مسئلہ زندگی گذارنے کی بنیادی ضروریات ہیں۔ ان کا مسئلہ جان بچانے والی ادویات، صحت کے مسائل، اشیاء خوردونوش، بچوں کی تعلیم، ٹرانسپورٹ، بجلی و گیس کے بل ہیں۔ اگر یہ سب کچھ سستا ہے تو لوگ خوش ہیں اگر یہ سب چیزیں عوام کی پہنچ سے باہر ہیں تو پھر کوئی بات نہیں سنے گا۔ یہ بات درست ہے کہ حکومت کی معاشی سمت درست ہے۔ قرضوں کے جال سے نکلنے کے لیے بہتر حکمت عملی پر کام ہوا ہے۔ خسارہ کم کرنے کے لیے بہتر اقدامات اٹھائے ہیں، اخراجات میں کمی کے لیے بہتر فیصلے کیے ہیں۔ ملکی خزانے کی حفاظت کے لیے بہتر فیصلے کیے گئے ہیں۔ بدقسمتی سے ان درست فیصلوں کے باوجود حکومت ان کاموں کا کریڈٹ لینے میں ناکام ہے اگر مہنگائی ہوئی ہے تو حکومت عوام کو قائل کرنے اور عام آدمی کو یہ حقیقت بتانے میں ناکام رہی یے کہ مہنگائی کی اصل وجہ کیا ہے۔ حکومت اپنے درست فیصلوں کے باوجود عوام تک یہ پیغام پہنچانے میں ناکام ہے کہ مہنگائی یا بیرونی قرضوں کی اصل وجہ ماضی کی حکومتوں کے لیے گئے قرض ہیں چونکہ پاکستان کے پاس وسائل نہیں ہیں اور قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے کیے بھی قرض لینا مجبوری ہے یہ سارا کیا دھرا انہی لوگوں کا ہے جو آج سڑکوں پر ہیں یہ ساری تباہی عوام کے ان نام نہاد غم خواروں کی وجہ سے ہے جو جلسے جلوس کرتے پھر رہے ہیں لیکن حکومت عوام کو قائل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ یہ حکومت کی میڈیا ٹیم کی بڑی ناکامی ہے یہ حکومتی وزرائ￿  کی بھی ناکامی ہے۔ وزراء  سارا وقت اپوزیشن پر الزامات لگانے یا ان کے الزامات کا جواب دینے میں مصروف رہتے ہیں وہ حقائق اور اعدادوشمار پر بات کرنے کے بجائے بیانات و الزامات پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے خود وزیراعظم عمران خان بھی بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کو جواب دے رہے ہوتے ہیں حالانکہ انہیں یہ نہیں کرنا چاہیے۔ گوکہ اہم ترین شعبوں میں درست حکمت عملی پر کام جاری ہے لیکن حکومت اپنی کامیابی کو بھی عوام میں منوانے کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے وزیراعظم عمران خان کو ان خامیوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن