1940ء میں لاہور کے مقام منٹو پارک (مینارِ پاکستان) میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی جس کے بعد ہندوستان کی تقسیم اور یہاں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ایک نئی مملکت کے قیام کی جدوجہد ایک زبردست تحریک کی صورت اختیار کر کے اور بھی زور پکڑگئی۔ علامہ اقبال برصغیر ایشیاء میں ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ایک علیٰحدہ مملکت کے وجود کا تصور پیش کر چکے تھے۔ اِسی خواب کی تعبیر کے لیے محمد علی جناح آگے بڑھے۔ یہ قائد اعظم کا ہی احسان ہے کہ آج ہم ایک آزاد ریاست جس کا نام ’’پاکستان‘‘ ہے ، آزادی اور خودمختاری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم ایٹمی قوت ہیں اور دنیا کے نقشے پر ہمارا وجود بھی قائم و دائم ہے۔ ہماری اپنی پہچان اور شان ہے۔ دنیا جانتی اور مانتی ہے کہ پاکستان کی فوج، اس کے ہنر مند، کسان، استاد اور سائنسدان کس قدر جری، اعلیٰ صلاحیتیوں کے مالک اور جدید سائنسی ارتقائوں کے حامل بڑے انسان ہیں۔ ہم جس بھی میدان اور شعبے میں ہیں، اپنی کامیابیوں کے جھنڈے ہی گاڑے ہیں۔ آزاد ہوئے تو نہایت بے سروسامانی کا عالم تھا۔ نہ فیکٹریاں، نہ صنعتیں۔ حکومتی خزانہ بھی خالی۔ بجلی بھی خال خال ،یعنی ترقی و خوشحالی کا سفر نہ ہونے کے برابر تھا۔ پھر ایک سفر کا آغاز ہوا اور ساٹھ کی دہائی تک ہم نے بہت سے سفر طے کر لئے۔ ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی کا سفر شروع ہوا ۔ بجلی اور پانی کی فراوانی کے لیے ڈیم بنے۔ صنعتیں لگیں، ملک آگے بڑھتا گیا ۔ جمہوری دور آیا اور بھٹو نے مسندِ اقتدار سنبھالا تو محسوس کیا کہ پاکستان کے ازلی اور نہایت مکار دشمن بھارت کو حملے اور دیگر ریشہ دوانیوں سے باز رکھنے کے لیے پاکستان کو ایٹم بم کی ضرورت ہے۔ سو، انہوں نے اس پر کام شروع کیا۔ معروف سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم بنائی، انہیں ہر طرح کی سپورٹ اور اربوں کے فنڈز مہیا کئے۔ یوں پاکستان کے تحفظ کے لیے ایٹم بم اور مزائلوں کی تیاری شروع ہوئی۔ اس پر کام ہوتا رہا۔ لیکن عالمی دبائواور عالمی تجارتی پابندیوں کے ڈر سے پاکستان ایٹم بم کا تجربہ نہ کر سکا۔ لیکن جب مسلم لیگ کی حکومت آئی تو امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے شدید دبائو کے باوجود پاکستان نے ایٹم بم کا دھماکہ کر کے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا کو باور کروا دیا کہ ’’ذر ا سنبھل کے‘ ہم بھی ایٹمی طاقت بن چکے ہیں۔ ہمارے اس ایٹمی دھماکے کو دنیا نے دیکھا اور مانا کہ پاکستان بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کر کے ایک محفوظ اور طاقت ور ترین ملک بن چکا ہے۔ آج بھارت بھی ہم سے گھبراتا ہے۔ پاکستان کئی حوالوں سے دنیا والوں کے لیے ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے۔ دنیا جان چکی ہے کہ پاکستان کو کسی بھی حوالے سے ہدف بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ پاکستان نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ پاکستان کی افواج ہی نہیں، پاکستان کے ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسدانوں اور ہنر مندوں کی دنیا بھر میں تعریف کی جاتی ہے۔ پاکستان کے قیام کے لیے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں جب تحریکِ آزادی کا آغاز ہوا تو اقائداعظم نے چند رفقاء کے ساتھ آزادی کی یہ تحریک شروع کی، پھر قافلہ بنتا چلا گیا۔ حمید نظامی اور مجید نظامی نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے ذریعے پاکستان کی بقاء کے لیے جو کام کیا، وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
25دسمبر کو ہم یوم قائداعظم بڑے تزک و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں۔ لیکن اس دن کا اہم تقاضایہ ہے کہ ہم قائداعظمؒ کی روح کے ساتھ آج وعدہ کریں کہ جس مقصد کے لیے ’’پاکستان‘‘ بنا، اس کا وجود عمل میں لایا گیا۔ ہم اُن تمام مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ ہماری شان، تمام آن بان صرف پاکستان ہی کے دم سے ہے۔ یہ عطیۂ خداوندی ہے ہمیں اس کی حفاظت کرنا ہے اور اسے آگے لے کر چلنا ہے۔ہم نے آج یہ عہد کر لیا تو سمجھیں ہم نے قائداعظم سے اپنا وعدہ وفا کر لیا۔ آئیں، ہم سب یک زبان ہو کر قائداعظم محمد علی جناح کو خراجِ تحسین پیش کریں اور ثابت کریں کہ ہم ملک و قوم کے اس عظیم محسن کو کبھی نہیں بھولیں گے اور اپنے قائدؒ کے تمام فرمودات پر عمل کریں گے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔