آج میں جس شخصیت کی کتاب پر خامہ فرسائی کرنے جا رہا ہوں‘ اسکے بارے میں لکھتے ہوئے میرا قلم ڈگمگا ضرور رہا ہے لیکن دل کو یہ تسلی بھی ہے کہ جب عوام الناس کے سامنے میری تحریر جائیگی‘ اس سے لوگوں کے کئی ابہام نہ صرف دور ہونگے بلکہ اس کامیاب شخصیت کے بارے میں بھی تفصیلاً آگاہی ہوگی۔ جسٹس ارشاد حسن خان صاحب کو میں ذاتی طور پر تو نہیں جانتا تھا البتہ میرے محسنین جناب سعید آسی صاحب‘ فضل حسین اعوان صاحب اور غلام نبی بھٹ صاحب کے توسط سے مجھے ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ یہی وہ وجہ بنی کہ انکی نایاب آٹوبائیوگرافی ’’ارشاد نامہ‘‘ میرے ہاتھ میں ہے۔ ارشاد نامہ اس لحاظ سے انکی زندگی کی ایک کھلی کتاب ہے کہ انکی زندگی جس طور گزری انہوں نے اس کا حال لکھنے میں کسی تکلف سے کام نہیں لیا۔ میں قانونی موشگافیوں سے بالکل نابلد ہوں البتہ اخبار سے منسلک ہونے کے ناطے ملک کی سیاست کی جو تھوڑی بہت سوجھ بوجھ ضرور ہے‘ اس لئے یہ ضرور جانتا ہوں کہ 12 اکتوبر 1999ء کے ماورائے اقدام پر چیف جسٹس صاحب نے جس دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ثابت بھی ہوا کہ انہوں نے پی سی او کے تحت جو حلف اٹھایا تھا‘ وہ ان کا انتہائی دانشمندانہ فیصلہ تھا۔وہ اگر حلف نہ اٹھاتے تو یقیناً مشرف فوجی عدالتیں قائم کرنے کا سوچتے‘ جبکہ فوجی عدالتوں سے سول عدالتوں کا بحال رہنا زیادہ بہتر فیصلہ تھا۔ بالفرض انکی جگہ کوئی دوسرا چیف جسٹس حلف اٹھا لیتا تو کیا فوج واپس بیرکوں میں چلی جاتی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ کیونکہ شب خون مارنے کا اقدام اٹھایا ہی سیاہ و سفید کے مالک بننے کیلئے تھا۔ بہرحال یہ معاملہ تو میں قانونی ماہرین اور دانشوروں پر چھوڑتا ہوں جو انکے اس فیصلے کو مزید نکھار کر عوام الناس کے سامنے لائیں گے جبکہ ارشاد نامہ کے کئی پہلوئوں پر قانون و انصاف سے وابستہ اہل دانش اس پر تفصیلی روشنی ڈال بھی چکے ہیں۔ مجھے انکی جس خاصیت نے متاثر کیا وہ ان کا اعتماد‘ لگن‘ عزم و ارادے کے ساتھ ساتھ انکی محنت شاقہ ہے کہ ایک سائیکل سوار اور یتیم بچہ بغیر کسی مدد اور سہارے کے کس طرح وہ پاکستان کا چیف جسٹس بنا۔ اس تناظر میں انکی زندگی کا ہر دور سبق آموز نظر آتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان میں اگر خوداعتمادی ہو اور محنت سے نہ گھبرائے تووہ جناب جسٹس ارشاد حسن خان کی طرح کسی ایک منزل پر نہیں ٹھہرتا بلکہ نئی سے نئی منزل کی جستجو میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے‘ تاآنکہ اصل منزل اسکے قدم چوم لیتی ہے۔ ارشاد نامہ جب میرے ہاتھ میں آیا تو غالب خیال یہی تھا کہ اسے پڑھنا خود کو عدالت کے اعصاب شکن کٹہرے میں کھڑا کرنے کے مترادف ہوگالیکن یقین جانیے کتاب کا ہر مضمون اپنے اندر ایسی دلچسپی لئے ہوئے ہے کہ قاری اس میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ سادہ اور عام فہم زبان اورسخنوری ایسی کہ گمان ہوتا ہے کہ چیف جسٹس صاحب اس نشست میں بیٹھے خود آپ کے ساتھ ہم کلام ہیں اور ارشاد نامہ کے ہر ایک پہلو کو آپ کے سامنے اجاگر کررہے ہیں۔ کمال کا عزم صمیم رکھنے والے چیف جسٹس صاحب نے اس وقت حیرت ورطہ میں ڈال دیا جب وہ ارادہ کرکے نکلے کہ مغرب سے پہلے ملازمت حاصل کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کا مصمم ارادہ اور عزم دیکھتے ہوئے انہیں مغرب سے پہلے ہی ملازمت سے نواز دیا۔ یہ واقعہ ارشاد صاحب نے کچھ یوں ارشاد فرمایا:
’’میں نے بی اے پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل محترم سراج الدین سے ایک تعریفی خط حاصل کیا اور نوکری کی تلاش میں نکل پڑا۔ انٹرویو کیلئے اکائونٹنٹ جنرل کے دفتر پہنچا ‘ اکائونٹنٹ جنرل کو تعریفی خط دیا جسے انہوں نے ہوا میں اڑاتے ہوئے کہا کہ اپنے پرنسپل کی طرف سے جاری کردہ شہادت نامے کی بنیاد پر آپ کسی ملازمت کو پانے کے حق دار نہیں۔ تعریفی خط کی بے حرمتی پر میں بھونچکا رہ گیا۔ خط اٹھاکر دفتر سے باہر نکل رہا تھا کہ انہوں نے مجھے بلا کر اپنائیت بھری نظر سے نوازا اور کہا ’’ینگ مین‘ میں تمہارے ماتھے پر چمکتا ہوا تاج دیکھ رہا ہوں‘ تم کلرک بننے کیلئے پیدا نہیں ہوئے‘ تم زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کیلئے پیدا ہوئے ہو۔ یہ سن کر میں وہاں سے نکل پڑا۔ ایک دو جگہ مزید قسمت آزمائی کی ‘ مگر انکار پر مایوس نہیں ہوا۔ بالآخر فیروز سنز میں ایک لمحہ سوچے بغیر داخل ہو گیا۔ استقبالیہ پر جا کر ایک بزرگ سے پوچھا‘ یہاں کا مالک کون ہے؟ اتفاق سے وہ عبدالحمید خان صاحب خود تھے۔ انہوں نے تحمل سے جواب دیا‘ میں آپ کیلئے کیا کر سکتا ہوں۔ میں نے جواب دیا‘ میں ملازمت کا خواہش مند ہوں۔ انہوں نے بھی معذرت کرلی۔ وہ شاید اس وقت کمرے کی سیٹنگ کروارہے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر ملازم سے کہا‘ یہ میز اٹھائو یہاں رکھو‘ پھر کچھ دیر میں نے اپنی سمجھ کے مطابق سارا سامان ترتیب کے ساتھ سیٹ کروا دیا اور وہ سب مجھے حیرت کے ساتھ دیکھتے رہے۔ سیٹنگ کرانے کے بعد انہیں خدا حافظ کہا تو انہوں نے کہا‘ سنو! کل منیجنگ ڈائریکٹر صاحب سے مل لو۔ اگلے روز ڈاکٹر وحید صاحب سے ملا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’عبدالحمید صاحب آپکے انداز اور جرأت سے بہت متاثر ہوئے۔ ہمیں ریسپشنسٹ کی ضرورت ہے۔ کیا آپ یہ ملازمت کرینگے؟‘‘ میں نے فوراً ہامی بھرلی۔ ڈاکٹر عبدالوحید صاحب نے کہا تو پھر آپ کب جوائن کر رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا‘ سر! میں کل شام سے آپ کو جوائن کر چکا ہوں۔جس پر وہ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکے۔‘‘
ان کا یہ اعتماد‘ جرأت اور انداز دیکھا جائے تو پرنسپل کی جانب سے ان کو دیئے گئے تعریفی خط کا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہوتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے مغرب سے پہلے ملازمت حاصل کرنے کا عزم سچ کر دکھایا۔ فیروز سنز انکی کامیابی کی سیڑھیوں کا پہلا سٹیپ تھا‘ اسکے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں اس طرح کامیابیاں عطا کیں گویا لوح و قلم انکے ہاتھ آگیا ہو اور وہ اپنی تقدیر لکھتے چلے گئے ہوں۔ مطالعہ کرنے سے قبل میں تذبذب کا شکار تھا کہ یہ تو مجھے اس کتاب میںکچھ سمجھ نہیں آنے والا۔لیکن مجھے ارشاد نامہ کا کوئی ایک صفحہ بھی ایسا نظر نہیں آیا جسے پڑھ کر بوریت کا احساس ہوا ہو‘ پڑھتے ہوئے کبھی افسانہ تو کبھی ناول کا گمان ہوتا رہا۔ کتاب میں نامور ماہرین آئین و قانون اور صاحبان علم و دانش کی انمول آراء شامل کی گئی ہیں جنہیں پڑھ کر جناب چیف جسٹس صاحب کی شخصیت کے مزید خوبصورت پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔ نسل نو کیلئے ارشاد نامہ واقعی ایک مشعل راہ ہے‘ یہ اندھیرے راستوں کا ایسا چراغ ہے جو اپنی منزل کی جستجو میں سرگرداں ہیں ‘ وہ اس چراغ سے جسٹس صاحب جیسے اعتماد‘ جرأت‘ عزم اور جستجو جیسی روشنی لے کر اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ بشرط عزم و ارادہ واقعی چیف جسٹس ارشاد حسن خان صاحب جیسا ہو جو حالات کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتے ہوئے ملک کے نامور چیف جسٹس بنے جس نے ایک آمر کو اپنے فیصلے کاپابند کیا اور قائم مقام صدارت کے عہدے پر بھی براجمان ہوئے۔