تجزیہ، محمد اکرم چودھری
پاکستان تحریک انصاف پیرا شوٹرز سے جان چھڑائے، نظریاتی، ایماندار اور وفادار کارکنوں کو ذمہ داریاں دیے بغیر کم بیک نہیں کر سکتی۔ جب تک نظریاتی اور جماعت کے نظریے سے مخلص افراد کو ذمہ داریاں نہیں دی جائیں گی اس وقت تک انتخابی سیاست میں واپسی ممکن نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا میں سامنے آنے والے نتائج نے تحریک انصاف کے اکابرین کو اکٹھا ہونے کا موقع تو دیا ہے یہاں سے اب مزید تیاریوں کے ساتھ میدان میں اترنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔ پرانے ساتھیوں کی یاد آ رہی ہے۔ پیرا شوٹرز کو دائیں بائیں بٹھا کر اور ایسے لوگوں کو وزارتیں دے کر جو اپنے حلقے میں بھی پانچ سال بعد جاتے ہیں ایسے لوگ جو ووٹرز کو غلام سمجھیں اور اعلانیہ کہیں کہ یہ سب ہمارے غلام ہیں، ہمیں ووٹ کیسے نہیں دیں گے۔ ایسے لوگوں کو فیصلے کرنے کا اختیار دینے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنوں نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ تک پہنچانے کے لیے دن رات محنت کی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی کی ترجیحات بدل گئیں۔ جنہیں اگلی صفوں میں ہونا چاہیے تھا غائب ہوتے گئے اور جنہیں پچھلی صفوں میں ہونا چاہیے تھا وہ قیادت کرنے لگے۔ وفاقی حکومت اپنے چوتھے سال میں ہے، خیبر پختونخوا میں ناکامی کی وجہ کسی کو بھی قرار دیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نچلی سطح پر توجہ نہ دینے اور اپنے لوگوں کو نظر انداز کرنے کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ تنظیم سازی پر توجہ نہیں دی گئی، جن لوگوں نے جماعت کو چلایا تھا انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا یا پھر ایسی جگہ لگا دیا گیا جہاں وہ جماعت کے لیے کچھ کرنا تو دور کی بات اپنے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ابتدائی دنوں میں پی ٹی آئی کے ساتھ تھے پھر الگ ہو گئے دوبارہ واپس آئے اور جماعت کے لیے کام کیا لیکن دو ہزار اٹھارہ میں حکومت بنانے کے بعد وزیراعظم عمران خان ایسے افراد سے بدظن ہوئے نہ انہیں دل سے لگایا نہ ان سے علیحدگی اختیار کی۔ پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا میں جھٹکا لگا ہے اس جھٹکے سے سبق سیکھ کر بنیاد کو بہتر بنانے پر توجہ دے کر واپسی کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن بنیادی معاملات پر توجہ دیے بغیر بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔