مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وہاں غیر مقامی بھارتی یعنی غیر کشمیریوں کی آبادکاری کا مودی حکومت کا فیصلہ اس بات کا عکاس ہے کہ اب بھارت نے کشمیر میں مکمل اپنی عملداری اور بھارتی آئین اور قانون کو بزور طاقت نافذ کرنے کی شروعات کر دی ہے۔ اب یہ کشمیریوں کی بدقسمتی ہے کہ گزشتہ 72 سال سے اس کی ضمیر فروش قیادت اس حوالے سے پیش بندی نہ کر سکی۔ اب تو 2019 ء کے جبری ادغام کے بعد تو کچھ کرنے کا یارا ہی نہیں رہا۔ جب 1947ء سے 2019ء تک جبری الحاق کا ناجائز رشتہ تھا اس وقت یہ بے ضمیر کشمیری سیاسی رہنما صرف تخت سرینگر پر رونق افروز ہونے کے لیے الحاق ہند کے تلوے چاٹتے رہے تھے۔ دہلی حکومت کے صدقے جاتے رہے۔ شیخ خاندان ہو یا مفتی خاندان ،بخشی خاندان ہو یا آزاد خاندان یہ سب صرف اور صرف بھارت کے حکمرانوں کو خوش کرنے کی پالیسی پر چلتے رہے۔ انہیں کشمیر اور کشمیریوں کے مستقبل سے کوئی سرورکار نہیں تھا۔ یہ تو ان حریت پسند کشمیری نوجوانوں کے لہو کا اعجاز ہے جنہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر 1998ء میں مسلح تحریک آزادی کی بنیاد رکھ کر کر کشمیریوں کو خراب خرگوش سے بیدار کیا۔ یہ انہی کشمیری نوجوان کا احسان ہے کہ مدتوں سے سوئی ہوئی سیاسی طور پر مردہ پڑی ہوئی قوم کو احساس ہوا کہ نیشنل کانفرنس یا کانگریس ، بی جے پی ہو یا پی ڈی پی یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ان کا کام صرف اقتدار حاصل کرنا اور اپنا پیٹ بھرنا ہے۔ کشمیریوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1998ء سے لے کر آج 2021 ء تک ہزاروں کشمیریوں کی شہادتوں، عصمتوں کی پامالیوں ، بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ ہوتا دیکھنے کے باوجود ان بے ضمیروں کا لہو نہیں کھولتا ضمیر بیدار نہیں ہوتا۔ یہ بوڑھے ماں باپ کو اپنے جوان بچوں کی لاشوں پر روتا دیکھ کر بھی دکھی نہیں ہوتے۔ ان میں سے کسی بے ضمیر سیاستدان نے یا ان کے حواریوں نے کشمیر کے طول و عرض میں شہید ہونے والے نوجوانوں کی شہادت پرایک لفظ بھی ہمدردی کے اظہار کا نہیں بولا۔ ان ظالم لٹیروں کو اقتدار پرست سیاستدانوں کو اگر دکھ ہوتا ہے تو بھارتی فوجیوں کے مرنے کا ہوتا ہے۔ یہ ان کے مرنے پر اظہار تعزیت کر کے بھارتی حکمرانوں کو یقین دلاتے ہیں ہم پر دست شفقت رکھیں ہم لاوارثوں کے وارث بن جائیں ہم سے اچھے ملازم آپ کو نہیں ملیں گے جو سو جوتے بھی کھاتے ہیں اور سو پیاز بھی پھر بھی اف تک نہیں کرتے۔ ابھی حال ہی میں انڈین آرمی چیف ہیلی کاپٹر حادثے میں مارا گیا۔ اس کے لیے یہ بے ضمیر لوگ یوں تڑپ رہے تھے گویا ان کا باپ مر گیا ہو جبکہ روزانہ غاضب بھارتی فوج کے ہاتھوں 3 سے 4 کشمیری بے گناہ شہید ہوتے ہیں ان میں سے کسی کے منہ سے ان کے حق میں ایک لفظ تعزیت روا نہیں ہوتا۔
کشمیر کشمیر کے ہاتھ سے گیا 2019 ء کے ادغام ہند سے اس کے دو ٹکڑے ہو گئے لداخ الگ ہوا جموں کشمیر الگ ہوا۔ ہزاروں انتہا پسند ہندو بھارتی بی جے پی کے ورکروں کو غیر قانونی طور پر جموں میں جعلی ڈومیسائل جاری کر کے بسایا جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں وادی کشمیرمیں بھی ہندو پنڈتوں کی واپسی کی آڑ میں غیر کشمیری ہندو پنڈتوں کو لا کر ان کی علیحدہ کالونیاں لا کر بسانے کی سازش شروع ہو چکی ہے۔ اس پر یہ لیڈر صرف زبانی کلامی بیان دے کر کشمیری عوام کو مطمئن کر رہے ہیں کہ دیکھ لو ہم اس کے خلاف ہیں مگر کوئی ان غلط فیصلوں کے خلاف آہنی دیوار بن کر کھڑا نہیں ہو رہا کیوں کہ بھارتی فوج کے سامنے ان کی پتلون گیلی ہو جاتی ہے۔ اب تو بی جے پی کی تھرڈ کلاس رہنما وادی کشمیر میں آ کر اپنے غلیظ ہندو توا کے نظریات کی پرچار کر رہے ہیں اور چند بے ضمیر کشمیر ان کے اردگرد نعرے لگاتے پھرتے ہیں۔
اب بھارت نے نہایت مکاری سے جموں کشمیر اسمبلی میں کشمیر کی اکثریت ختم کرنے کے لیے جو اسمبلی کی سیٹوں میں نئی بندر بانٹ کی ہے اس میں 70 لاکھ کشمیریوں کے لیے صرف ایک نشست کااضافہ کیا ہے جبکہ جموں کی 15 لاکھ کی آبادی کے لیے 6 نشستوں کا اضافہ کیا گیا ہے جو سراسر زیادتی اور ہندو آبادی کا تناسب بڑھانے اور زیادہ دکھانے کی سازش ہے ۔حیرت کی بات ہے اس پر کشمیری سیاسی سماجی اور مذہبی تنظیموں کی طرف سے وہ طوفان اٹھتا نظر نہیں آتا جو متوقع تھا۔
اس وقت اگر کوئی حقیقی عوامی رہنما مضبوط سٹینڈلے اور بھارت کی ان چالبازیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو وہ مستقبل میں بڑے قد کاٹھ کا لیڈر بن سکتا ہے۔ ورنہ اس وقت کشمیر کی سیاست میں بونوں کا راج ہے جو قوم کے قتل عام پر نہیں بولتے وہ نشستوں کی بندر بانٹ پر کیا منہ کھولیں گے۔
کیا ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ کشمیری قوم میں کوئی رہنما پیدا ہو جو انہیں آلو اور بیگن کا بھرتہ بنانے کی بجائے ایک آہنی دیوار بنا دے اور کشمیریوں کی آزادی کی صبح کو ضوفشاں کر کے لاکھوں شہدا کی قربانیوں کو رائیگاں جانے سے بچا لے۔