معزز قارئین ! آج24 دسمبر ہے لیکن کل 25 دسمبرکو اہل ِ پاکستان اور بیرون پاکستان فرزندان و دُخترانِ پاکستان اپنے اپنے انداز میں بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی 146 ویں سالگرہ عقیدت و احترام سے منائیں گے۔ مجھے کئی روز سے عاشقِ رسول ؐ مصّور ِ پاکستان علاّمہ محمد اقبالؒ کی ایک نظم ’’ طلوع اسلام‘‘ یاد آ رہی تھی جس کی بنیاد 9 ستمبر 1923ء میں جب، غازی مصطفیٰ کمال پاشا نے بے سرو سامانی کے باوجود یورپی سازشوں کی زنجیریں توڑ کر جمہوریہ تُرکیہ قائم کِیا تھا ۔ مَیں علاّمہ صاحبؒ کا صرف ایک شعر بیان کر رہا ہوں …
’’ہزاروں سال نرگس ، اپنی بے نُوری پہ ،روتی ہے!
بڑی مشکل سے ،ہوتا ہے ، چمن میں ،دِیدہ وَر پیدا!‘‘
… O …
شارح اقبالیات مولانا غلام رسول مہر ؒ نے اِس شعر کی شرح یوں بیان کی ہے کہ ’’ نرگس ‘‘ (معشوق کی آنکھوں جیسا پھول) ہزاروں سال روتا رہتا ہے لیکن’’چمن‘‘ (خیابان ، باغ ، روشن ، گلستان و بوستان) میں صاحب بصیرت بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے !‘‘۔ ترکوں نے اپنے قائد غازی مصطفیٰ کمال پاشا کو ’’ اتا ترک ‘‘ (ترکوں کا باپ ) کا خطاب دِیا تھا۔ اتا ترک نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد یہ کِیا کہ اپنی ساری جائیداد ترک قوم کے نام کردی تھی۔
’’خطبہ ٔ الہ آباد ! ‘‘
معزز قارئین ! علاّمہ اقبالؒ جب، وکالت کرتے تھے تو وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور باقی مقدمات اپنے دوست / شاگرد وُکلاء میں تقسیم کردیتے تھے۔ 1930ء میں خطبہ الہٰ آباد میں کہا کہ ’’ برصغیر میں مسلمانوں کے لئے ایک جُدا ریاست ہندوستان کے ساتھ ساتھ اسلام کے لئے بھی انتہائی فائدہ بخش ہے۔ ہندوستان کے لئے یوں کہ اندرونی توازنِ اقتدار کے باعث تحفظ اور امن پیدا ہوگا اور اسلام کے لئے یوں کہ اُسے موقع مِلے کہ وہ عرب ملوکِیت سے نجات پا جائے اور اپنے قانون ، تعلیم و ثقافت کو تحریک دے کر انہیں اپنی اصل رُوح سے قریب لے آئے اور روحِ عصر سے ہم آہنگ کردے! ‘‘۔
خطبۂ الہ آباد کے بعد 28 مئی 1937ء کو علامہ اقبالؒ نے قائداعظمؒ کے نام اپنے ایک خط میں لِکھا کہ ۔ ’’ مَیں یہ جان کر خوش ہُوا ہُوں کہ آپ اُن باتوں کو پیشِ نظر رکھیں گے جو مَیں نے آپ کو ’’آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘کے آئین اور پروگرام سے متعلق لِکھی تھیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ حالات کی سنگینی سے پوری طرح واقف ہیں ۔ جہاں تک اُن کی زد ہندی مسلمانوں پر پڑتی ہے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو بالآخر اِس امر کا فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آیا وہ ہندوستانی مسلمانوں کے محض اوپر ؔکے طبقوں کی نمائندہ جماعت ہے یا مسلمان عوام ؔکی جماعت؟۔ جنہوں نے ابھی تک معقول وجوہ کی بنا پر اِس میں دلچسپی نہیں لی۔ ذاتی طور پر میرا ایمان ہے کہ کوئی ایسی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی قِسمت کو بہتر بنانے کا وعدہ نہیں کرتی وہ ہمارے عوام کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی؟ ‘‘۔
’تحریک پاکستان ! ‘‘
معزز قارئین ! ۔ قائداعظمؒ کی قیادت اور ’’آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے پرچم تلے اسلامیان ہند نے مسلسل جدوجہد کے بعد، 23 مارچ 1940ء کو’’ قراردادِ پاکستان ‘‘ منظور کی ، پھر باقاعدہ تحریک پاکستان جاری ہوگئی لیکن اِس سے قبل ہندوئوں کی دہشت گرد تنظیم ’’ راشٹر سیوم سیوک سنگھ ‘‘ (آرایس ایس ایس)، متعصب ہندو جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ سکھوں کے مسلح جتھوں اور دوسری غیر مسلم تنظیموں نے مختلف صوبوں میں 18 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام کِیا اور 95 ہزار سے زیادہ مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی آبرو ریزی کی ۔ مشرقی (اب بھارتی ) پنجاب میں سِکھوں نے 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی عصمت ریزی کی۔ بہرحال 14 اگست 1947ء کو پاکستان بن گیا۔
’’ گورنر جنرل آف پاکستان !‘‘
قیام پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناحؒ ، ’’ بابائے قوم ‘‘ کہلائے ، آپؒ نے بھی ’’ اتا ترک ‘‘ کی پیروی کرتے ہُوئے اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا۔ آپؒ نے اپنی ہمشیرہ ، محترمہ فاطمہ جناحؒ کو حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا اور نہ ہی مسلم لیگ میں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی آمریت کے دَور میں جب ، 2 جنوری 1965ء کو صدارتی انتخاب طے پایا تھا توفیلڈ مارشل محمد ایوب خان ( صدر پاکستان مسلم لیگ کنونشن ) کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناحؒ ، متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں تو، ’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامیؒ نے اُنہیں ’’مادرِ ملّت‘‘ کا خطاب دِیا تھا ۔
’’ پاکستان دو لخت ! ‘‘
معزز قارئین !16 دسمبر 1971ء کو قائداعظمؒ کا پاکستان دولخت ہوگیا تھا۔ 20 دسمبر 1971ء کوسِویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا ، پھر جس کسی نے بھی اقتدار سنبھالا وہ مفلوک اُلحال عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دَور میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں اُن کے چھوٹے بھائی پاکستان مسلم لیگ کے ایک لیڈر سردار بہادر خان کا یہ شعر پیش کر رہا ہُوں کہ …
یہ راز توکوئی راز نہیں ، سب اہلِ گلستاں جانتے ہیں!
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے ، انجامِ گلستاں کیا ہوگا ؟
…O…
معزز قارئین !جنابِ بھٹو کے بعد آج تک جوکچھ ہوتا رہا اور ہو رہا ہے اُس بارے آپ نظم یا نثر میں جو کچھ کہیں آپ کی مرضی، مَیں تو، ’’ بابائے قوم ‘‘ کی خدمت میں اپنی ایک نظم کے صرف 6 اشعار پیش کر رہا ہوں ، ملاحظہ فرمائیں…
نامِ محمد مصطفیٰؐ ،نامِ علیؓ عالی مُقام!
کِتنا بابرکت ہے ، حضرت قائداعظمؒ کا نام؟
… O …
جب مُقّدر کُھل گیا، اِسلامیانِ ہِند کا!
قائدِ ذِی شانؒ اُبھرا، صُورتِ ماہِ تمام!
… O …
ٹوٹ کر، گِرنے لگے، ہر سُو، اندھیروں کے صَنم!
رَزم گاہ میں ، آیا جب، وہ عاشقِ خَیرُ الانامؐ!
… O …
سامراجی مُغ بچے بھی ، اور گاندھیؔ کے سپُوت!
ساتھ میں رُسوا ہوئے، فتویٰ فروشوؔں کے اِمام!
… O …
یہ ترا اِحسان ہے ، کہ آج ہم آزاد ہیں!
اے عظیم اُلشان قائدؒ! تیری عظمت کو سلام!
… O …
اپنے نصب اُلعین کی، تکمیل کرسکتے ہیں ہم!
قطبی تارے کی طرح ، روشن ہے قائدِ کا پیام!
… O …