برطانوی ہائوس آف کامنز ( دارالعوام) نے بھارتی ہائی کمیشن لندن کو خط لکھ کر مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالے ظلم و ستم پر وضاحت طلب کرلی ہے۔ 28 ارکان کی طرف سے لکھے جانیوالے خط میں کہا گیا ہے کہ 2 سال میں ڈھائی ہزار بے گناہ کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا جبکہ سماجی کارکن خرم پرویز کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا ہے جو انسانی حقوق کا دفاع کرنیوالا ہے۔ جعلی مقابلوں میں بے گناہ عام کشمیریوں کو دہشت گرد بنا کر مار دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں پر بھارتی ہائی کمیشن سے وضاحت طلب کی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ خرم پرویز کے معاملے کی شفاف انداز میں تحقیقات کی جائیں۔
برصغیر میں کشمیر کا مسئلہ خود برطانیہ ہی کا پیدا کردہ ہے۔ تقسیم ہند سے قبل برطانوی وائسرائے ہندلارڈ مائونٹ بیٹن نے کانگرس کے رہنما نہرو سے مل کر تقسیم کے فارمولے کو پس پشت ڈالتے ہوئے کشمیر کو نئی ریاست پاکستان کا حصہ نہیں بننے دیا جبکہ یہ طے تھا کہ برصغیر کی خودمختار ریاستوں کو اکثریتی آبادی کے فارمولے کے تحت پاکستان اور ہندوستان میں شامل کیا جائیگا۔ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریتی علاقے بھارت کا حصہ بنا دیئے جائینگے۔اس فارمولے کا ریاست جوناگڑھ‘ مناوادر پر تو اطلاق کرکے ہندو اکثریتی آبادی کی بنیاد پر انہیں بھارت کا حصہ بنا دیا گیا مگر مسلم اکثریتی آبادی کے باوجود ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا گیا جس میں سراسر برطانوی وائسرائے ہند کی بدنیتی کا عمل دخل تھا۔ اس طرح ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں جو پاکستان وجود میں آیا‘ وہ اصل پاکستان نہیں تھا جس کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے جانوں کی قربانی دی۔ عفت مآب خواتین نے عصمتوں کو لٹایا‘ ہندو اور سکھ انتہاء پسندوں اور بلوائیوں کے ہاتھوں معصوم بچے نیزے کی انی پر اچھال دیئے گئے اور بے رحمانہ لوٹ مار کی گئی تھی۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے اس غیرمنصفانہ تقسیم کیخلاف احتجاج بھی کیا تھا لیکن حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ اس فیصلے کو طوعاً و کرہاً قبول کئے بنا چارہ نہیں تھا۔ تاہم کشمیر کا تنازعہ اس وقت سے ہی اس خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ خود بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر کو متنازعہ علاقہ بنا کر یہ مسئلہ خود اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے اور اقوام متحدہ نے اسے اپنے ایجنڈے میں شامل کرلیا تھا اور پھر باقاعدہ قرارداد منظور کرکے کشمیریوں کو استصواب کا حق دیا۔ اس حوالے سے منظور شدہ قرارداد آج بھی موجود ہے لیکن بھارتی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی ہے کہ وہ خود اس مسئلے کے حل میں سنجیدہ نہیں۔ اس ضمن میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار جنگیں بھی لڑی جا چکی ہیں۔ آئے روز سرحدی جھڑپیں اور سٹرائیکس بھی ہوتی رہتی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مختلف سطحوں پر مذاکرات بھی ہوئے لیکن بھارتی حکمرانوں کی بدنیتی کے باعث یہ مسئلہ جوں کا توں موجود ہے اور اقوام عالم کا منہ چڑا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت کشمیر کے عوام کو استصواب کا حق اقوام عالم نے دے رکھا ہے اور یہ طے ہے کہ وہ اپنا استصواب کا حق پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے ہی استعمال کرینگے جس کا فیصلہ وہ قیام پاکستان سے بھی پہلے اپنے ایک نمائندہ اجتماع میں کرچکے ہیں۔کشمیری عوام خود کو پاکستانی ہی سمجھتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں جتنے لوگ بھی بھارتی فوج اور پولیس کے ہاتھوں شہید ہوتے ہیں‘ انہیں پاکستانی پرچم میں دفنایا جاتا ہے۔کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والے حریت پسند پاکستان ہی کے حق میں نعرے لگاتے ہیں‘ وہ بھارتی حکومت کے جبر و ظلم کا پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ اب تک لاکھوں کشمیری بھارت سے آزادی کی جنگ میں شہادت کی منزل تک پہنچ چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی اور ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرنے والے بھارتی حکام کشمیریوں کو انکے نصب العین سے پیچھے ہٹانے میں ناکام رہے ہیں۔
بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں‘ اس نے اپنے ہمسایہ ممالک کو ہر موقع پر اپنی مشقِ ستم کا نشانہ بنایا۔ بھوٹان‘ سکم اور نیپال سمیت کوئی بھی ہمسایہ ملک اسکی دست برد سے محفوظ نہیں۔ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور پھر اسے جبری طور پر بھارت کا حصہ بنانے کیلئے 5 اگست 2019ء کو اٹھایا جانیوالا قدم اسکے انہی توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم کا آئینہ دار ہے۔ اہل کشمیر بھارت کی چالبازیوں اور اسکے مکروہ عزائم کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ گھر گھر سرچ اپریشن ہو رہا ہے‘ بھارتی افواج اور پولیس اہلکار نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کو گھروں سے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی جاتی ہے۔ کشمیریوں کے خلاف ہونیوالے اس ظلم و جبر پر اگرچہ انسانی حقوق کی بعض عالمی تنظیموں نے بھی مذمت کی ہے اور دنیا کی توجہ اس اہم مسئلے کی جانب مرکوز کروائی ہے لیکن اسکے باوجود بھارت پوری ڈھٹائی کے ساتھ جبر کا یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان نے بھی ہر فورم پر کشمیر میں ہونیوالے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بہیمانہ ظلم و تشدد کیخلاف آواز اٹھائی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اس مسئلے کے مستقل اور پائیدار حل کیلئے اقوام عالم پر اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔ اس تناظر میں برطانوی دارالعوام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بھارتی ہائی کمیشن سے وضاحت طلب کرنا خوش آئند ہے لیکن یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ اسے محض مذمتی بیانات‘ خطوط یا کاغذی اقدامات سے حل کیا جا سکے اس کیلئے ٹھوس عملی اقدامات اٹھانا ہونگے۔ مسئلہ کشمیر چونکہ برطانیہ ہی کا پیدا کردہ ہے‘ لہٰذا اسے اب انسانی بنیادوں پر آگے بڑھنا چاہیے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسکے منصفانہ حل کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جب تک یہ مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا‘ خطے میں دیرپا امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور یہ ایسا سنجیدہ‘ سنگین اور حساس مسئلہ ہے کہ کسی بھی وقت ان میں بڑی جنگ کا باعث بن سکتا ہے جو لامحالہ ایٹمی جنگ ہوگی۔ لہٰذا اس خطے کو ایٹمی تباہ کاریوں سے بچانے کیلئے برطانیہ سمیت تمام عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو عملی کردار ادا کرنا ہوگا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر انکی روح کے مطابق عملدرآمد کا مقاضی ہے۔